خداوند عالم کی مرضی کو اپنی خواھشات کے پر ترجیح دینا



امیر المومنین  (ع) فرماتے ھیں کہ عنقریب یہ قوم اسلامی اقدار ومفاھیم اور اصول Ú©Ùˆ Ú†Ú¾ÙˆÚ‘ کر ایک عظیم فتنہ میں مبتلا ھونے والی Ú¾Û’ اور اسکی وہ حالت ھوجائے Ú¯ÛŒ جو کھولتے ھوئے شوربہ Ú©ÛŒ ھوتی Ú¾Û’ کہ اوپر کا حصہ نیچے اور نیچے کا حصہ اوپر ھوجاتاھے۔

فتوحات کی وسعت اور خدا کی جانب سے رزق میں فراوانی کے باعث امت اسلامیہ کی یھی حالت ھوگئی تھی جیسا کہ مال و نعمت کی زیادتی کے باعث عھد جاھلیت کی بھی یھی افسوسناک حالت تھی۔

دور جاھلیت کے نظام قدروقیمت کو تبدیل کرنے اور اس سے مقابلہ کرنے کے لئے اسلام نے فقر اوراستغنا کی نئی اصطلاحیں ایجاد کیں اور انھیں نئی اصطلاحوں اور نئے مفاھیم کے ذریعہ دور جاھلیت کے نظام قدروقیمت کو تبدیل کردیا۔

قدروقیمت کا اسلامی نظام

لفظ غنی یا استغنا کے معنی کو دو طرح سے بیان کیا جاتا ھے ۔ایک بیان کے مطابق استغنا کا مطلب ھے ”انسان کے پاس زر وجواھر کا بکثرت موجود ھونا“اس طرح غنی کے معنی کا تعلق عالم محسوسات سے ھے اور یہ مطلب لفظ ”ثروتمند“کے مترادف ھے۔

دوسرے بیان کے مطابق حقیقتاً استغنا سے مراد”دل کا مستغنی ھونا“ ھے جو کہ الله تعالیٰ پر ایمان اور توکل سے حاصل ھوتا ھے اور اس معنی کا مال کے ھونے یا نہ ھونے سے کوئی تعلق نھیں ھے اور عین ممکن ھے کہ انسان کے پاس بے پناہ مال ودولت ھو مگر پھر بھی وہ فقیر ھو اور ھوسکتا ھے کہ مال ودولت بالکل نہ ھو پھر بھی انسان غنی ھو۔

فقر واستغنا کے یہ معنی،لغوی اور رائج معنی سے بالکل مختلف ھیں۔اور ان معنی کے لحاظ سے استغنا کا تعلق نفس انسانی سے ھے نہ کہ مال ودولت اور خزانہ سے۔

دین اسلام لفظ فقر واستغنا کو نئے معنی و مفاھیم دے کر در اصل دور جاھلیت کے نظام قدروقیمت کو تبدیل کرکے اسکے مقابلہ میں جدید نظام پیش کرنا چاہتا ھے۔

اسکی مزید وضاحت Ú©Û’ لئے Ú¾Ù… استغنا  اور فقر Ú©Û’ بارے میں اسلامی روایات Ú©ÛŒ روشنی میں Ù¾Ú¾Ù„Û’ لفظ استغنا کا مطلب بیان کریں Ú¯Û’ اور پھر اس جدید نظام Ú©ÛŒ وضاحت کریں Ú¯Û’ جو اسلام Ù†Û’ قدروقیمت Ú©Û’ سلسلہ میں پیش کیا Ú¾Û’Û”

اسلامی روایات میں استغنا کا مفھوم

رسول اکرم  (ص)Ù†Û’ فرمایا:

<لیس الغنیٰ عن کثرة العرَض،ولکن الغنیٰ غنیٰ النفس>[8]



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 next