خداوند عالم کی مرضی کو اپنی خواھشات کے پر ترجیح دینا



در اصل نفس کی بے نیازی اس میں مضمر ھے کہ انسان مادیات اور دنیا پر اعتماد نہ کرے بلکہ اللہ پر بھروسہ رکھے اس لئے کہ دنیا فانی ھے اور ذات الٰھی دائمی ، ما دیات محدود ھیں اور خدا کی سلطنت لا محدود ۔

لہٰذا جب انسان اللہ پر توکل اور بھروسہ Ú©Û’ سھارے مستغنی اور بے نیاز ھوگا تو کبھی بھی  کمزوری اور نا توانی محسوس نھیں کرے گا ۔حالات کتنے Ú¾ÛŒ منقلب کیوں نہ Ú¾Ùˆ جا ئیں ،آسانیاں سختیوں میں تبدیل کیوں نہ Ú¾Ùˆ جا ئیں اللہ پر توکل کرنے والے Ú©Û’ پائے ثبات متزلزل نہ Ú¾ÙˆÚº Ú¯Û’ کیونکہ ایسی بے نیازی نفس سے تعلق رکھتی Ú¾Û’ اور کسی بھی عالم میں نفس سے جدا نھیں Ú¾Ùˆ سکتی Ú¾Û’ Û”

مو لائے کائنات(ع)  متقین Ú©Û’ صفات کا تذکرہ کرتے ھوئے ارشاد فرماتے ھیں :

<فی الزلازل وقور،وفی المکارہ صبور>[24]

”(متقین)مصائب وآلام میں با وقار اور دشواریوں میں صابر ھوتے ھیں“

اس کی وجہ یہ ھے کہ ان کی بے نیازی نفس کی گھرائیوں میں پوشیدہ ھے اور کو ئی بھی پریشانی یا سختی اس بے نیازی کو ان سے جدا نھیں کر سکتی اور یہ بے نیازی اللہ پر ایمان ،اعتماد ،توکل اور اس کی رضا پر راضی رھنے سے حاصل ھو تی ھے ۔در اصل بے نیازی یھی ھے اوراس سے بڑھکر کو ئی بے نیازی نھیں ھو سکتی ھے اور حالات کی تبدیلی اس پر اثر انداز نھیں ھو تی ھے ۔

پیغمبر اکرم  (ص) کاارشاد گرامی Ú¾Û’ :

<یا اٴباذراستغنِ بغنیٰ الله تعالیٰ،یغنک الله>[25]

”ا ے ابوذراللہ کی بے نیازی کے ذریعہ مستغنی بنو اللہ (واقعاً)بے نیاز بنا دے گا “

مولائے کائنات(ع)  کا ارشاد Ú¾Û’ :



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 next