خداوند عالم کی مرضی کو اپنی خواھشات کے پر ترجیح دینا



شیخ کلینی Ù†Û’ اصول کافی میں سند Ú©Û’ ساتھ یہ روایت امام محمد باقر(ع)  سے یوںنقل Ú©ÛŒ Ú¾Û’:

<۔۔۔الاکففت علیہ ضیعتہ وضمنت السموات والارض رزقہ،وکنت لہ وراء تجارةکل تاجر>[4]

”مگر یہ کہ میں اسکے ضروریات زندگی (پونجی)کا ذمہ دارھوں اور آسمان و زمین اسکے رزق کے ضامن ھیں اور میںھر تاجر کی تجارت کے پس پشت اسکے ساتھ ھوں “

مرضی خدا کو اپنی خواھش پر ترجیح دینا

اس ترجیح دینے کے معنی یہ ھیں کہ انسان خداوند عالم کے ارادہ کو اپنی خواھشات کے اوپر حاکم بنالے اور احکام الٰھیہ کے مطابق اپنے نفس کو اسکی خواھش سے روکتا رھے جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ھے :

<واٴما من خاف مقام ربہ ونھی النفس عن الھویٰ فان الجنة ھی الماویٰ>[5]

”اور جس نے رب کی بارگاہ میں حاضری کا خوف پیدا کیا اور اپنے نفس کو خواھشات سے روکا، جنت اسکا ٹھکانہ اور مرکز ھے “

تقویٰ اور فسق وفجور (برائیوں)کے راستے جس نقطہ سے ایک دوسرے سے جدا ھوتے ھیں وہ نقطہ وھی ھے جھاں خداوند عالم کی خواھش (اسکا حکم اور قول)اور انسان کی خواھش (ھوس)کے درمیان ٹکراؤ پیدا ھوتا ھے ۔چنانچہ جب انسان خدا کی خواھش (مرضی )کو اپنی خواھش کے اوپر ترجیح دیتا ھے تو وہ تقوے کے راستہ پر چلنے لگتاھے اور جب اپنی خواھشوں کو خداکی مرضی کے اوپر ترجیح دینے لگتا ھے تو فجور(برائیوں)کے راستے پر لگ لیتا ھے ۔

۱۔جعلت غناہ فی نفسہ

”اسکے نفس میں استغنا پیدا کردوں گا“

لوگوں کے درمیان عام تاثر یہ ھے کہ فقر وغنی ٰکا تعلق سونے اور چاندی اور زروجواھرات سے ھے اور نفس و قلب سے اسکا کوئی تعلق نھیں ھے لیکن اسلام میں فقرو غنیٰ کا مفھوم اسکے برعکس ھے اسلام کی نگاہ میں فقر اور غنیٰ کا تعلق نفس سے ھے نہ کہ مال ودولت سے، لہٰذا ھوسکتاھے کہ ایک ایساانسان غنی ھوجومالی اعتبار سے فقیر ھو اور ھوسکتا ھے کوئی انسان فقیر ھوچاھے وہ مالی اعتبار سے ثروتمند ھی کیوں نہ ھو ۔

امام حسین  (ع) Ú©ÛŒ دعائے عرفہ میں وارد ھواھے:



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 next