دنیا کو حقیر جاننا اور آخرت کو اہمیت کی نگاہ سے دیکھنا(دوسرا حصه)



          بیشک، انسان کا کمال اس میں ہے کہ وہ خدا Ú©Û’ سامنے پانی پانی ہو جائے اور اپنے لئے کسی آزادی کا قائل نہ ہو اور خود Ú©Ùˆ وابستہ ا ور خدا وند متعال کا محتاج جانے، جس قدر وہ اپنے آپ Ú©Ùˆ محتاج اور خدا Ú©Û’ سامنے حقیر تصور کرے گا، خدا سے زیادہ نزدیک ہو تاجائے گا۔ اس کمال تک پہنچنے کا راستہ یہ ہے کہ جب انسان عظمت الہٰی Ú©Ùˆ درک کرتا ہے، تو اس Ú©Û’ اندر اپنی کوتاہی اور ذلت کا احساس پیدا ہوتا ہے جو شخص۔ کمال Ùˆ معرفت بندگی Ùˆ اطاعت Ú©Û’ بلند درجات کا طلب گار ہے اس  Ú©Û’ لئے یہ بہترین راستہ ہے Û”

          ہم، جو خوف کوغیر مطلوب Ùˆ ناپسندیدہ حالت تصورکرتےہیں، یہ سنتے ہوئے تعجب کرتے ہیں کہ اولیاء الہٰی حالت خوف سے لذت محسوس کرتے تھے، اور اگر اس حالت Ú©Ùˆ Ú©Ú¾Ùˆ جانے Ú©ÛŒ صورت میں دوبارہ کوشش کرتے تھے تاکہ اسے پھر سے حاصل کریں Û” یہ خوف وہراس ان Ú©Û’ لئے اس قدر پسندیدہ Ùˆ لذت بخش ہے کہ کبھی اسے اپنے سے جدا ہونا پسند نہیں کرتے! چونکہ ہم اس مرحلہ تک نہیں پہنچنے ہیں، لہذا اس Ú©Û’ بارے میں صحیح ادراک نہیں کرتے ہیں اور حقیقت میں اسے بیان نہیں کرسکتے Û” لیکن جو Ú©Ú†Ú¾ ہمیں اولیاء الہٰی Ú©ÛŒ زندگی Ú©ÛŒ داستان سے حاصل ہوتا ہے، وہ یہ ہے کہ جو انتہائی محبت رکھتے تھے، محبوب Ú©ÛŒ راہ میں درد Ùˆ کرب سے  لذتمحسوس کرتے تھے Û” اس Ú©Û’ فراق میں رونے سے انھیں سکون کا احساس ہوتا تھا۔ باوجو داس Ú©Û’ کہ رونا غم واند وہ Ú©ÛŒ علامت ہے لیکن چونکہ یہ معشوق Ú©Û’ لئے ہے اسلئے ان Ú©Û’ لئے لذت بخش ہے Û” اس لحاظ سے ہم کہتے ہیں کہ خدا کا خوف اولیاء خدا Ú©Û’ لئے پسندیدہ اور اصلاحی ہے اور عظمت الہٰی Ú©Û’ آگے آب آب ہونے  اورخوف Ùˆ خشیت Ú©ÛŒ حالت پیدا کرنے سے ناراض نہیں ہوتے، وہ Ú©Ù… از Ú©Ù… اتناجانتے تھے کہ یہ بذات خود ایک ایسی بے نہایت اور ابدی لذت تک پہنچنے کا مقدمہ ہے، جس Ú©Û’ بعد کسی اور لذت کا وجود نہیں ہے Û”

          لہٰذا، اولیاء الہٰی اور بزرگانِ دین خوف الہٰی Ú©Ùˆ اہمیت دیتے تھے، کیونکہ اسے نفس Ú©ÛŒ سرکشی اور اس Ú©Û’ بے مہار ہونے نیز استغنا اور خود پسندی جیسی بیماریوں سے نجات پانے کا بہترین عامل سمجھتے تھے Û” اسی طرح یہ حالت ان Ú©Û’ لئے مقام ”فنا“ تک پہنچنے کا بہترین وسیلہ تھی۔

          اس سلسلہ میں جس مطلب Ú©ÛŒ طرف اشارہ کرنا ضروری ہے، وہ یہ ہے کہ بعض افراد جب چند عرفانی اصطلاحات، جیسے ”مقامِ محو Ùˆ فنافی اللہ“ Ú©Ùˆ یاد کرتے ہیں تو خیال کرتے ہیں عارف بن گئے ہیں اور کسی مقام پر پہنچ گئے ہیں! بہتر ہے یہ لوگ اپنے Ú©Ùˆ کسوٹی پر قرار دیں اور امتحان کریں کہ کیا ان Ú©Û’ دل میں خوف خدا  جیسی حالتیں پیدا ہوئی یا نہیں، کیا ان Ú©ÛŒ زندگی میں کبھی کوئی ایسی رات گزری ہے جب انہوں Ù†Û’ خدا Ú©Û’ خوف میں صبح تک شب بیداری Ú©ÛŒ ہو؟ کیا کبھی ان Ú©ÛŒ آنکھیں رونے سے مجروح ہوئی ہیں؟ انسان Ú©Û’ لئے یہ دعویٰ کرنا آسان ہے کہ وہ لقا Ø¡ اللہ Ú©ÛŒ منزل تک پہنچاہے اب ان حالات Ùˆ مقامات سے کوئی سروکار نہیں ہے، لیکن ہمیں توجہ کرنی چاہئے کہ کیا حضرت یحییٰ Ú©Û’ وصال Ú©ÛŒ حالت کا جیسا ایک ذرہ ہم میں پایا جاتا ہے؟ کیا ان حالات کا ہم میں کوئی اثر نمایاں ہے؟ چند اصطلاح Ú©Ùˆ یاد کرنے اور دعویٰ کرنے سے کوئی عارف نہیں بنتا ہے Û” یہ ایک طولانی اور پُر خطر راستہ ہے، اس مرد بزرگ الہٰی، مرحرم آیت اللہ شیخ محمدتقی آملی Ú©Û’ بقول: اس راستہ Ú©Ùˆ Ø·Û’ کرنا، پلکوں سے پہاڑ کھود Ù†Û’ Ú©Û’ مترادف ہے!

          اگر کوئی معرفت الہٰی Ú©Û’ راستہ Ú©Ùˆ Ø·Û’ کرنا چاہے، تو اسے مشکلات، ریاضت اور شب بیداری Ú©ÛŒ سختیوں Ú©Ùˆ برداشت کرنے Ú©Û’ لئے تیار رہنا چاہئے، چاہئے کہ خدا رسیدہ افراد Ú©Û’ مانند راستہ Ú©Ùˆ Ø·Û’ کرے دیکھنا چاہئے کہ اولیاء الہٰی جیسے حضرت علی علیہ السلام اور حضرت سجاد علیہ السلام Ù†Û’ کس طرح اس راستہ Ú©Ùˆ Ø·Û’ کیا ہے Û”

 

خوف الہٰی اور گناہ، شہرت و جاہ طلبی سے پرہیز:

          گزشتہ بحث Ú©Û’ مطابق، منجملہ خوف الہٰی Ú©Û’ آثار میں سے Û” بلند معنوی درجات پر فائز ہونے والوں Ú©Û’ لئے Û” فنافی اللہ ہے، لیکن عام لوگوں Ú©Û’ لئے خوف الہٰی کا بلند ترین اثر گناہ سے پرہیز کرنا ہے Û” جب انسان گناہ کا مرتکب ہوتا ہے تو وہ اس Ú©Û’ ساتھ نفع حاصل کر Ù†Û’ یا نعمت یالذت Ú©Ùˆ پانے Ú©Û’ درپے ہوتا ہے، خواہ وہ لذت حقیقی ہویا خیالی، خواہ وہ لذت شہوانی ہویا بہ عنوان شہرت Ùˆ مقام کوئی لذت ہو۔ جو چیز انسان کواس طرح Ú©Û’ گناہ Ùˆ انحراف سے دو چار ہونے اور باطل عوامل سے نجات دیکر شیطان Ú©Û’ پھندے سے آزاد کر سکتی ہے، وہ خداء متعال کا خوف ہے Û” گناہ Ú©Û’ بُرے آثار انسان Ú©Ùˆ ابدی اور پائدار اخروی نعمتوں سے محروم کر Ú©Û’ ہمیشہ ہمیشہ Ú©Û’ عذاب میں مبتلا کرتے ہیں Û” (یقینا جس قدر خدا کا خوف زیادہ ہوگا اس کا اثر بھی زیادہ ہوگا)

          ایک روایت میں آیا ہے کہ اگر کسی دل میں خوف خدا ہو تو اس میں مقام وجاہ طلبی Ú©ÛŒ محبت نہیں ہوگی۔ یعنی جو خدا سے ڈرتا ہے وہ جاہ طلب نہیں ہے وہ لوگوں میں محبوبیت پیدا کرنے اور شہرت Ú©Û’ پیچھے نہیں دوڑتا ہے Û” جاہ طلبی انسان Ú©Û’ لئے سب سے بڑی آفت ہے Û” بعض روایتوں میں آیا ہے کہ مومنین Ú©Û’ لئے سب سے بڑی آفت حبِ مال وحب جاہ ہے Û” یعنی جاہ طلبی اور ریاست طلبی  --آخری ناپسندیدہ صفت جو صد یقین Ú©Û’ دلوں سے خارج ہوتی ہے  --- کاجوشی علاج کرسکتی ہے وہ خدا کا خوف ہے Û”

          یقینا جس Ù†Û’ عظمت الہٰی Ú©Ùˆ درک کر لیا اور خدا Ú©Û’ مقابل میں اپنی حقارت اور پستی Ú©Ùˆ اچھی طرح سے سمجھ گیا اور اس بات سے آگاہ ہوگیا کہ گناہ Ùˆ عصیان کا دنیا Ùˆ آخرت میں کتنا خطرناک انجام ہے ØŒ تو وہ شہرت طلبی Ùˆ جاہ طلبی Ú©ÛŒ ہوس Ú©Ùˆ اپنے دماغ سے نکال باہر کرتا ہے Û” لہٰذا، خوف الہٰی کا سب سے بڑا اثر اپنے آپ Ú©Ùˆ گناہ میں آلودہ کرنے سے پرہیز کرنا ہے ۔البتہ جن Ú©ÛŒ معرفت مکمل ہوتی ہے ان Ú©Û’ دل میں خدا Ú©ÛŒ محبت جاگزین ہوتی ہے Û” اور وہ خدا سے ملاقات کا شوق رکھتے ہیں اور ان Ú©ÛŒ یہی محبت الہٰی اور خدا سے ملاقات کا شوق اس امرکا سبب بنتا ہے کہ اپنے معشوق Ú©Û’ علاوہ دوسروں سے چشم پوشی کرے، لیکن یہ مرتبہ انھیں سے مخصوص ہے جو اس Ú©Û’ اہل ہیں اور ہم حب الہٰی Ú©Û’ اس مرتبہ تک نہیں پہنچے ہیں Û” تنہا جو چیز ہم سے ممکن ہے وہ اپنے دلوں میں خوف الہٰی Ú©Ùˆ تقویت بخشنا ہے تاکہ اس Ú©Û’ اثر سے ہم گناہوں سے بچ سکیں اور رفتہ رفتہ یہ لیاقت پیدا کریں کہ محبت الہٰی Ú©Ùˆ اپنے دل میں جگہ دےں اس طرح محبت Ùˆ معرفت الہٰی Ú©Û’ بلند تر ین مقامات تک پہنچ سکتے ہیں Û”



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 next