دنیا کو حقیر جاننا اور آخرت کو اہمیت کی نگاہ سے دیکھنا(دوسرا حصه)



          ماہرین نفسیات اور نفسیاتی طبیبوں Ú©Û’ کام Ú©Û’ بارے میں ان Ú©ÛŒ ایک نصیحت یہ ہے کہ جس پر وہ بہت زیادہ تاکید کرتے ہیں تلقین ہے‘ البتہ اس Ú©Û’ لئے خاص الفاظ Ùˆ آداب Ú©Ùˆ مد نظر رکھا گیا ہے‘ تاکہ تلقین موثر واقع ہو۔ مثال Ú©Û’ طور پر کہا گیا ہے: ایک خلوت میں بیٹھ کر ایک معین حد تک آواز بلند کر Ú©Û’ چند مرتبہ ایک جملہ Ú©ÛŒ تکرار کیجئے‘ تاکہ تمہاری روح میں یہ جملہ اثر کرے Û” یہ استثنائی مواقع ہیں‘ غالباً انسان بات کرتے وقت ایک معنی Ú©Ùˆ تصور کرتا ہے‘ اس Ú©Û’ بعد لفظ Ú©Û’ ذریعہ اسے دوسروں تک منتقل کرتا ہے Û” ایک عاقل انسان کبھی معنی Ú©Ùˆ مد نظر رکھے بغیر بات نہیں کرتا ‘ کیونکہ کلمہ یا لفظ معنی Ú©Ùˆ بیان کرنے والا ہوتا ہے Û”

          لفظی ذکر کہتے وقت‘ مثلاً ”تسبیحات اربعہ“ کہتے وقت ہم ایک معنی Ú©Ùˆ تصور کرتے ہیں اور اس کلمہ Ú©Ùˆ تصور کئے گئے معنی Ú©Ùˆ بیان کرنے والا قرار دیتے ہیں‘ ہمارا مقصد یہ نہیں ہوتا ہے کہ اس معنی Ú©Ùˆ ہم خدائے متعال یا ملائکہ اور دوسروں Ú©Ùˆ سمجھادیں‘ کیونکہ یہاں پر ہم مکالمہ اور گفتگو کا قصد نہیں رکھتے ہیں بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ وہ معنی ہماری روح میں اثر کرے Û” لہذا اثر معنی میں ہے اور کلمہ وسیلہ Ú©Û’ علاوہ Ú©Ú†Ú¾ نہیںہے Û”

          جب ہم ”اللہ اکبر“ کہتے ہیں اور اس ذکر Ú©Ùˆ ایک مقدس عمل Ú©Û’ طور پر قبول کرتے ہیں‘ ہمارا مقصد اس ذکر Ú©Û’ معنی کا انسان Ú©ÛŒ روح اور سعادت پر اثر ڈالنا ہے ورنہ کلمات اور حروف (الف ‘لام‘کاف) معنی Ú©Ùˆ نظر انداز کرنے Ú©ÛŒ صورت میں خود سے نکلنے والی ایک آواز ہے جس میں کوئی اثر نہیں‘ اس لحاظ سے ذکر Ú©Û’ وقت با معنی کلام بیان کرنا چاہئے Û”

          نتیجہ Ú©Û’ طور پر لفظی ذکر بیان کرنے سے پہلے انسان میں خدا Ú©ÛŒ یاد کا ایک ادنی مرتبہ پیدا ہوتا ہے اور اس Ú©Û’ بعد خدا Ú©ÛŒ یاد کا ایک عالی مرتبہ پیدا ہوتا ہے Û” جب انسان ذکر کرتا ہے تو ابتداء میں خدا Ú©Ùˆ یاد کرتا ہے (ورنہ اگر خدا سے بالکل غافل ہو تو ذکر کرنے کا مرحلہ ہی نہیں آتا ہے) انسان Ú©ÛŒ توجہ جتنی بھی کمزور ہو‘ ذکر سے قبل خدا Ú©ÛŒ طرف توجہ کرتا ہے اس Ú©Û’ بعد ذکرکرتا ہے جو خدا Ú©ÛŒ یاد Ú©ÛŒ دلیل ہے Û” پس لازمی طور پر ذکر سے پہلے خدا Ú©ÛŒ یاد کا ایک مرتبہ ہم میں موجود ہوتا ہے Û”

لفظی ذکر کے دو فائدے:

          لفظی ذکر کا پہلا فائدہ اور مقصد یہ ہے کہ خدا Ú©ÛŒ یاد کا ضعیف مرتبہ قوی ہو جاتا ہے تاکہ انسان Ú©ÛŒ توجہ خدا Ú©ÛŒ طرف متمرکز ہو جائے Û” انسان Ú©Û’ اندر ابتدا میں خدا Ú©Û’ لئے ایک مبہم توجہ ہوتی ہے یا اس Ú©ÛŒ توجہ منتشر ہوتی ہے لیکن لفظی ذکر خاص کر نماز Ú©Û’ ذریعہ‘ وہ توجہ قوی اور متمرکز ہو کر خدا Ú©ÛŒ سمت میں معین ہو جاتی ہے Û” یہ ایک مقصد اور فائدہ ہے جسے لفظی ذکر Ú©Û’ بارے میں تصور کیاجا سکتا ہے Û”

          لفظی ذکر کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اگر لفظی  ذکرسے وہ ضعیف توجہ قوی نہیں ہوتی تو Ú©Ù… از Ú©Ù… اس کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور وہ ختم نہیں ہوتا۔ انسان Ú©Û’ حالات اور اس Ú©ÛŒ توجہات‘ منجملہ خدا Ú©ÛŒ یاد ہمیشہ متغیر اور زوال پذیری Ú©Û’ خطرہ سے دو چار ہے Û” اس لحاظ سے اس Ú©ÛŒ قلبی توجہ Ú©Û’ استمرار کےلئے   لفظی ذکر سے مدد حاصل کرنی چاہئے‘ تاکہ خدا Ú©ÛŒ یاد ہم سے فراموش نہ ہو جائے Û” اس بنا پر ذکر کےلئے مذکورہ دو فائدے اور مقصد شمار کئے جا سکتے ہیں‘ لیکن پہلا فائدہ اور مقصد بہتر اور عالی تر ہے Û”

          بعض اوقات ممکن ہے لفظی ذکر کا کوئی فائدہ نہ ہو‘ اور وہ اس صورت میں ہے جب ذکر Ú©Ùˆ بہ عنوان عادت ورد کیا  جائے اور صرف زبان Ú©ÛŒ حرکت ہو اور انسان اس Ú©Û’ معنی Ú©ÛŒ طرف توجہ نہ رکھے Û” تمام زبانی عادات اور اعمال Ú©ÛŒ طرح کہ انسان کسی قسم Ú©ÛŒ توجہ Ú©Û’ بغیر زبان سے اس کا ورد کرتا ہے Û” بعض لوگ ہمیشہ تسبیح گھماتے رہتے ہیں ØŒ تسبیح ا ور اس Ú©Û’ فائدہ Ú©ÛŒ طرف بالکل توجہ نہیں کرتے Û” یا بعض لوگوں Ú©ÛŒ یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ اپنی انگلیوں یا داڑھی سے کھیلتے رہتے ہیں اور اس کام Ú©ÛŒ طرف متوجہ نہیں ہوتے Û” زبانی عادت Ú©Û’ بارے میں بعض بچوں Ú©ÛŒ یہ عادت ہوتی ہے کہ بعض کلمات Ú©Ùˆ زبان پر جاری کرتے ہیں‘ بغیر اس Ú©Û’ کہ اس Ú©ÛŒ طرف ان کا قلبی میلان ہو۔

          ہم میں سے بہت سے لوگ بعض دعاؤں اور اذکار Ú©Ùˆ ایک خشک عادت Ú©Û’ طور پر پڑھتے رہتے ہیں اور ان Ú©Û’ معنی Ùˆ مفہوم Ú©ÛŒ طرف کوئی توجہ نہیں کرتے‘ اس لحاظ سے ان دعاؤ ÚºÚ©Û’ ذریعہ ہمارے اندر کسی بھی قسم Ú©ÛŒ تبدیلی رونما نہیں ہوتی ہے Û” ممکن ہے ہم ابتداء میں توجہ Ú©Û’ ساتھ کسی کام Ú©Ùˆ شروع کریں اور کسی ذکر Ú©Ùˆ زبان پرجاری کریں‘ مثال Ú©Û’ طور پر ہم سنتے ہیں کہ ایک روایت میں نقل ہوا ہے کہ تسبیحات فاطمہ زہر اسلام اللہ علیہا یا فلاں ذکر کابہت زیادہ ثواب ہے‘ اس لحاظ سے اس تسبیح Ú©Ùˆ توجہ Ú©Û’ ساتھ پڑھتے ہیں لیکن آہستہ آہستہ ہماری توجہ Ú©Ù… ہوتی جاتی ہے یہاں تک ان کلمات Ú©Ùˆ بہطور عادت  کسی قسم Ú©ÛŒ توجہ Ú©Û’ بغیر زبان پر جاری کرتے ہیں Û” البتہ ”اللہ اکبر‘ ”لا الہ الا اللہ“ جیسے اذکار Ú©Ùˆ توجہ Ú©Û’ بغیر بھی کہنا مہمل اور بیکار Ú©ÛŒ باتوں سے بہتر ہے لیکن یہ انسان میں مطلوب روحانی اثر پیدا نہیں کرتے Û”

          ایسے انسان بھی ہوتے ہیں جو خدا پر کسی قسم کا اعتقاد نہیں رکھتے لیکن عادت Ú©Û’ طور پر خدا کا نام زبان پر جاری کرتے ہیں اور یہ کام ان کےلئے ایک ثقافت اور تہذیب کا حصہ بن گیا ہے، اس سے پہلے بعض کمیونسٹ جو دین‘ معنویات اور خدا پر بالکل اعتقاد نہیں رکھتے تھے‘ لیکن رسم اور عادت Ú©Û’ مطابق جب ایک دوسرے سے جدا ہونا چاہتے تھے‘ ایک دوسرے Ú©Û’ احترام میں ”خدا حافظ“ کہتے تھے لیکن وہ اس Ú©Û’ معنی پر کوئی توجہ نہیں کرتے تھے‘ چنانچہ بعض اوقات ہم مسلمانوں میں بھی خدا کا نام زبان پر جاری کرنا رسم Ùˆ عادت بن گئی ہے اور اس Ú©Û’ معنی Ùˆ مفہوم Ú©ÛŒ طرف توجہ نہیں کرتے Û”



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 next