دنیا کو حقیر جاننا اور آخرت کو اہمیت کی نگاہ سے دیکھنا(دوسرا حصه)



رہتے ہو اور کبھی کام سے ہاتھ کھینچ لیتے ہو؟ انہوں نے کہا: ہم اسباب و وسائل ساز و سامان کے منتظر رہتے ہیں ۔ میں نے پوچھا: تمہارا سامان کیا ہے؟ انہوں نے کہا: ذکر ”سبحان اللّٰہ“ و ”الحمد للّٰہ“ ”لا الہ الا اللّٰہ“ و ”اللّٰہ اکبر“ جو مومن کی زبان پر جاری ہوتا ہے ۔ جب وہ ان اذکار کا زبان سے ورد کرتا ہے ہم کام میں مشغول ہوجاتے ہیں اور جب اذکار کہنا چھوڑدیتا ہے تو ہم کام سے ہاتھ کھینچ لیتے ہیں ۔

          پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہشت Ú©ÛŒ توصیف میں فرماتے ہیں:

”یَا اَبَاذَرٍّ؛ لَو اَنَّ اِمْرَاٴَةً مِنْ نِسَاءِ اَہْلِ الْجَنَّةِ اَطْلَعَتْ مِنْ سَمٰاءِ الدُّنیٰا فِی لَیْلَةٍ ظَلْمٰاءٍ لَاَ ضٰائَتْ لَھَا الَارْضُ اَفْضَلَ مِمَّا یُضیٖئُھٰا الْقَمَرُ لَیْلَةَ الْبَدْرِ وَلَوَجَدَ رِیحَ نَشْرِھَا جَمٖیعُ اَھْلَ الْاَرْضِ وَلَوْ اَنَّ ثَوْباً مِنْ ثِیَابِ اَھْلَ الْجَنَّةِ نُشِرَ الْیَوم فِی الدُّنْیَا لَصَعِقَ مَنْ یَنْظُرُ اِلَیہِ وَمَا حَمَلَتْہُ اَبْصٰارُھُمْ“

          اے اباذرۻ: اگر بہشتی عورتوں میں سے ایک عورت بھی گھٹا ٹوپ تاریک رات میں اس دنیا Ú©Û’ آسمان پر ظاہر ہوجائے‘ تو چودھویں Ú©Û’ چاند سے زیادہ زمین Ú©Ùˆ منور کردے Ú¯ÛŒ اور اس Ú©Û’ زلف Ú©Û’ پریشان ہونے سے جو عطر پھیلے گا اس Ú©ÛŒ خوشبو تمام اہل زمین تک پہنچے Ú¯ÛŒ ہے اور اگر اہل بہشت میں سے ایک شخص کا لباس آج دنیا میں پھیلادیا جائے‘ جو بھی اس Ú©ÛŒ طرف دیکھے گا‘ وہ بیہوش ہو جائے گا اور لوگوں Ú©ÛŒ آنکھوں میں اسے دیکھنے Ú©ÛŒ تاب نہیں ہوگی۔

          حدیث Ú©Û’ اس حصہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ وسلم Ú©Û’ بیانات سے استفادہ ہوتا ہے کہ قیامت اور بہشت میں انسان Ú©ÛŒ طاقت اور اس Ú©ÛŒ آنکھوں Ú©ÛŒ بصارت اس دنیا Ú©ÛŒ طاقت اور آنکھوں Ú©ÛŒ توانائی سے بہت زیادہ قوی ہے Û” انسان اس دنیا میں اس قدر ضعیف ہے اس Ú©ÛŒ قوت ادراک اور برداشت Ú©ÛŒ طاقت اتنی Ú©Ù… ہے کہ اگر بہشت Ú©Û’ لباسوں میں سے ایک لباس دنیا میں ظاہر ہو جائے‘ تو کوئی آنکھ اسے دیکھنے Ú©ÛŒ طاقت نہیں رکھتی اور اس Ú©Û’ دیکھنے سے سب بے ہوش ہو جائیں Ú¯Û’ Û” جبکہ بہشتیوں Ú©Û’ لئے اس لباس Ú©Ùˆ پہننا اور اسے دیکھنا ایک عادی امر ہے،حقیقت میں بہشت میں توانائیاں من جملہ دیکھنے اور درک کرنے Ú©ÛŒ توانائی بہت زیادہ ہوگی، بعض مخلوقات جیسے انسان جو دنیا میں عقل Ùˆ شعور رکھتے ہیں‘ آخرت میں انکے عقل Ùˆ شعورفہم Ùˆ فراست Ú©ÛŒ طاقت اتنی زیادہ  ہوگی کہ شائد یہاں Ú©ÛŒ بہ نسبت لاکھوں گنا سے بھی زیادہہو، وہاں پر ہر ایک چیز زندہ ہے اور در حقیقت زندگی وہیں پر ہے اور اس Ú©ÛŒ وجہ سے ہر ایک چیز علمی اور شعوری وجود رکھتی ہے اور بات کرتی ہے‘ اس لحاظ سے حتی درخت اور کنکریاں بھی گفتگو کرتے ہیں:

<وَمَا ھٰذِہ الْحَیَوٰاة الدُّنْیٰا اِلاَّ Ù„ÙŽÚ¾ÙŽÙˆÙŒ وَلَعِبٌ ÙˆÙŽ اِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَھِیَ الْحَیَوَٰانُ لَوْ کَانُوا یَعْلَمُونَ۔“     (عنکبوت/Û¶Û´)

”اور یہ زندگانی دنیا کھیل تماشے کے سوا کچھ نہیں ہے اور آخرت کا گھر ہمیشہ کی زندگی کا مرکز ہے اگر یہ لوگ کچھ جانتے اور سمجھتے ہوں ۔“

          فطری بات ہے جب ہر چیز میں زندگی ہو اور حتی گھاس اور کنکریاں بھی گفتگو کرتی ہوں‘ تو یقیناً وہ انسان جو پہلے ہی سے زندگی Ùˆ شعور کا مالک تھا اس Ú©Û’ بھی تمام اعضا گفتگو کریںگے Û” اس لحاظ سے  جہنم میں انسان Ú©Û’ کان آنکھ اس Ú©Û’ اعضا Ùˆ جوارح جب اس Ú©Û’ جرم Ùˆ گناہ Ú©ÛŒ شہادت دےں گے‘ تو وہ کہیں Ú¯Û’: تم Ù†Û’ کیسے ہمارے اعمال پر شہادت دی؟ وہ اعضاء جواب میں کہیں Ú¯Û’:

          <اَنْطَقَنَا اللهُ الَّذِی اَنْطَقَ کُلَّ شَیءٍ․․․>          (فصلت/Û²Û±)

          ہمیں اس خدا Ù†Û’ گویا بنایا ہے جس Ù†Û’ ہر شیٴ Ú©Ùˆ قوت گویائی عطا Ú©ÛŒ ہے Û”

          جو Ú©Ú†Ú¾ اس حدیث Ú©Û’ اس حصہ میں جہنم Ú©Û’ عذابوں اور بہشت Ú©ÛŒ نعمتوں Ú©Û’ بارے میں بیان ہوا‘ دنیا Ú©Û’ پیمانوں سے قابل پیمائش نہیں ہیں Û” کس طرح بنام“ غسلیں“ ایک سیال مادہ اس قدر بدبودار‘ خطرناک اور جلانے والا ہو کہ اگر مشرق میں زمین پر ڈالدیا جائے تو مغرب میں رہنے والوں کا مغز ابلنے Ù„Ú¯Û’ گا اور جل جائے گا! البتہ اس لئے ہم خیال نہ کریں Û” ایسی چیز ہونے والی نہیں ہے اور تصور سے دور ہے‘ خدائے متعال Ù†Û’ بعض عناصر جیسے ”یورانیم“ میں پوشیدہ اور فشردہ انررجی (توانائیاں) جیسے‘ اٹم Ú©ÛŒ انرجی (Atomic Energy) رکھی ہے کہ اگر اس عنصر سے تھوڑی سی مقدار میں انرجی آزاد ہو جائے تو اس کا دھماکہ اس قدر بھیانک خطرناک اور تباہ Ú©Ù† ہوگا کہ پورے ایک شہر Ú©Ùˆ ویران اور تہ Ùˆ بالا کر Ú©Û’ رکھ دے گا! پھر یہ قدرت Ùˆ انرجی اس دنیا میں موجودہ عناصر میں ہے Û” اب ذرا اس عالم Ú©Û’ بارے میں سوچئے جہاں پر عناصر Ú©ÛŒ انرجی اور اس Ú©ÛŒ طاقت دنیا Ú©ÛŒ انرجی اور طاقت Ú©Û’ لاکھوں برابر ہے  یقیناً اس Ú©Û’ آثار بھی اتنی ہی برابر زیادہ ہوں Ú¯ÛŒ جو ہمارے لئے قابل فہم Ùˆ درک نہیں ہیں Û”

          جو Ú©Ú†Ú¾ بیان ہوا‘ وہ اس لئے تھا کہ ہم اپنی حیثیت Ùˆ منزلت Ú©Ùˆ سمجھ لیں Û” ہمیں جاننا چاہئے کہ ہم اس محدود دنیا (جس میںدرک Ùˆ شعور بھی محدود ہے)میںپیدا کئے گئے ہیں Û” یہ وہ دنیا ہے جس Ú©ÛŒ لذتیں محدود ہیں‘ ہمارا درک Ùˆ شعور بھی اس میں محدود ہے Û” ہمیں جاننا چاہئے کہ جو Ú©Ú†Ú¾ اس دنیا میں ہے وہ آخرت کا ایک مقدمہ ہے اور آخرت Ú©ÛŒ خوشیوں سے قابل موازنہ نہیں ہے Û” جن بلاؤں اور مصیبتوں سے ہم دنیا میں روبرو ہوتے ہیں وہ اخروی عذابوں Ú©Û’ مقابلہ میں ناچیز ہیں Û”

          یقینا دنیا Ú©Û’ عذابوں کا آخرت Ú©Û’ عذابوں سے موازنہ اور دنیا Ú©ÛŒ نعمتوں اور خوشیوں کا آخرت Ú©ÛŒ خوشیوں اور نعمتوں سے موازنہ اور ان Ú©Û’ درمیان زیادہ فاصلہ اور تفاوت کا بیان اس بات کا سبب ہے کہ ہر شخص اپنی ظرفیت اور ذہنی توانائی Ú©Û’ مطابق عالم آخرت Ú©Û’ مقابلہ میں اپنے آپ Ú©Ùˆ حقیر اور اپنی دنیا Ú©Û’ ناچیز ہونے Ú©Û’ بارے میں سوچے اور اندازہ لگائے اور نظام آفرینش میں اپنی حقارت کا اپنے  پروردگارکی عظمت Ùˆ کبریائی سے موازنہ کر Ú©Û’ درک کرے Û” اس موازنہ اور ناپ تول کا ایک اور نتیجہ خدا Ú©Û’ مقابلے میں تکبر اور خود بینی سے پرہیز اور انکساری Ùˆ فروتنی Ú©Ùˆ اپنا شیوہ قرار دینا ہے Û” انسافن اگر دنیا میں کسی نعمت سے بہرہ مند ہے تو اسے اس پر ناز نہیں کرنا چاہئے اور اگر کسی نعمت سے محروم ہے تو اس پر افسوس نہ کرے کیونکہ دنیا Ú©ÛŒ تمام نعمتیں بہشت Ú©Û’ ایک سیب Ú©Û’ برابر قدر Ùˆ منزلت نہیں رکھتی ہےں Û” اس بنا پر یہ عالم دل Ú©Ùˆ وابستہ کرنے Ú©ÛŒ جگہ نہیں ہے Û” ہمیںانبیاء اور اولیاء خدا Ú©ÛŒ راہنمائی Ú©ÛŒ برکت سے قیامت اور پروردگار Ú©ÛŒ عظمت کا اندازہ لگانا چاہئے اور اپنی حیثیت Ú©Ùˆ جانتے ہوئے کوشش کرنی چاہئے تا کہ غرور‘ تکبر‘ خود بینی اور خود پسندی سے آلودہ نہ ہوں Û”

 

 



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23