دنیا کو حقیر جاننا اور آخرت کو اہمیت کی نگاہ سے دیکھنا(دوسرا حصه)



          عصر جاہلیت Ú©Û’ عربوں اور اس طرح صدر اسلام Ú©Û’ عربوں میں جو تازہ اسلام لائے تھے Û” اللہ کا نام زبان پر جاری کرنا مرسوم تھا۔ جب وہ کسی کتے یا سور Ú©Ùˆ دیکھتے تھے تو نفرت Ú©Û’ طور پر کہتے تھے ”اللھم اخزہ“ خدایا اسے نابود کر۔ بغیر اس Ú©Û’ کہ اللہ تعالیٰ یا اس Ú©ÛŒ یاد Ú©ÛŒ طرف کوئی قلبی توجہ کرتے Û” بیشک یہ کلمات انسان میں کسی قسم کا اثر نہیں ڈالتے اور یہ خدا Ú©ÛŒ یاد شمار نہیں ہوتے ہیں Û”

          اس حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ وسلم جناب ابوذر ۻسے تاکید کرتے ہیں کہ جب خدائے متعال Ú©Ùˆ یاد کرنا چاہو تو پہلے اس Ú©ÛŒ عظمت Ùˆ جلال کا تصور کرو۔ یاد رکھو کہ جو خدا وند تمام کائنات کا خالق ہے اور تمام چیزیں اس Ú©ÛŒ قدرت میں ہیں‘ جس طرح بے انتھا عظمت Ùˆ جلال کا مالک ہے اس کا نام بھی بے انتہا عظمت Ùˆ جلال کا مالک ہے‘ اس جہت سے اس Ú©ÛŒ عظمت Ùˆ کبریائی کا تصور کرو۔ یہ اس صورت میں ممکن ہے جب تمھاری روح اور دل میں خدائے تعالیٰ Ú©ÛŒ عظمت پیدا ہوجا ئے‘ تاکہ خشوع Ùˆ خضوع Ú©Û’ ساتھ اس کا نام زبان پر جاری کرو۔ ایسا نہ ہو کہ جاہل لوگوں Ú©ÛŒ طرح جو کسی توجہ Ú©Û’ بغیر خدا کا نام زبان پر لیتے ہیں عادت Ú©Û’ طور پر خدا کا نام زبان پر جاری کرو۔

          وہ ذکر انسان Ú©ÛŒ روح ونفس پر اثر کرتا ہے‘جو ذکر نماز قائم کرنے میں اطمینان قلب اور مقصد شمار ہوتا ہے‘ وہ ذکر انسان Ú©ÛŒ روحی Ùˆ معنوی بلندی کا سبب اور دنیوی Ùˆ مادی افکار Ú©Ùˆ Ú†Ú¾ÙˆÚ‘Ù†Û’ کا باعث نیز ابدی آخرت اور خدا Ú©ÛŒ نعمتوں Ú©Û’ وسیع ہونے کا ذریعہ ہوتا ہے جو انسان کا خدا Ú©Û’ ساتھ رابطہ مستحکم اور مضبوط کرے ‘ جو اس Ú©Û’ معنی Ùˆ مفہوم Ú©Ùˆ ملحوظ رکھ کرنیز خدائے متعال Ú©Ùˆ حاضر Ùˆ ناظر سمجھ کر زبان پر جاری ہوتا ہے Û” یہ وہی ذکر ہے جس Ú©ÛŒ توصیف میں خدائے متعال فرماتا ہے:

          <اِنَّمَا الْمُومِنُونَ الَّذِینَ اِذَاذُکِرِ اللهُ وَجِلَتْ قُلُوبُھُمْ․․․>(انفال/Û²)

          بیشک مومنین وہ ہیں کہ جب خدا کا ذکر ہوتا ہے تو ان Ú©Û’ دل لرز Ù†Û’ لگتے ہیں

          آخرمیں مناسب ہے کہ بعض اصحاب پیغمبر Ú©Û’ ذکرا ور یاد خدا Ú©ÛŒ مقدار Ú©ÛŒ توصیف Ú©Û’ بارے میں حضرت علی علیہ السلام Ú©Û’ کلام کا ملا حظہ کریں:

”․․․لقدراٴیت اصحاب محمد صلی الله علیہ و آلہ وسلم فما اَریٰ احداً منکم یشبھھم‘ لقد کانوا یصبحون شُعثاً غُبَراً وقد باتوا سُجداً و قِیَاماً یُراوحُونَ بین جِبٰاھِھِم وخُدودِھِم و یَقِفون علی مثل الْجمر من ذکر مَعٰادھم کاٴَنَّ بین اعیُنِھم رکب المِعزیٰ من طول سجودھم․․․“ ۱

          میں Ù†Û’ حضرت محمد صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ وسلم Ú©Û’ اصحاب Ú©Ùˆ دیکھا ہے میں نہیں دیکھتا ہوں کہ تم میں سے کوئی ان Ú©Û’ مانند ہوگا۔ وہ صبح سویرے بکھرے ہوئے بال اور غبار آلود ہوتے تھے کیونکہ وہ رات بھر قیام Ùˆ سجود Ú©ÛŒ حالت میں بیدار رہتے تھے، گاہے اپنی پیشانی Ú©Ùˆ اور گاہے اپنے رخسار Ú©Ùˆ خاک پررکھتے تھے Û” قیامت Ú©ÛŒ یاد میں چنگاری اور Ø¢Ú¯ Ú©Û’ شعلے Ú©ÛŒ طرح جلتے ہوئے Ú©Ú¾Ú‘Û’ رہتے تھے (اضطراب Ùˆ پریشانی Ú©ÛŒ شدت سے) گویا ان Ú©ÛŒ پیشانیوں پر طولانی سجدوں Ú©Û’ سبب بکریوں Ú©Û’ زانوؤں Ú©Û’ مانند Ú¯Ú¾Ù¹Û’  پڑجاتے تھے Û”

 

 



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 next