دنیا کو حقیر جاننا اور آخرت کو اہمیت کی نگاہ سے دیکھنا(دوسرا حصه)



          اس سے پہلے ہم Ù†Û’ خدا Ú©ÛŒ یاد اور اس Ú©Û’ ذکر پر بحث کی۔ کہا گیا کہ ذکر اوریاد خدا خشوع Ùˆ خضوع اور قلبی توجہ Ú©Û’ ساتھ انجام دیا جاناچاہئے‘ نہ کہ عادت Ú©Û’ طور پر فقط زبان سے Û” اب بحث یہ ہے کہ کونسی چیز انسان Ú©Û’ لئے ذکر Ú©Û’ وقت توجہ اور حضور قلب پیدا کرنے کا باعث ہے Û” اس لحاظ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ وسلم ایک ایسے نکتہ Ú©ÛŒ طرف اشارہ کرتے ہیں جو ذکر Ú©Û’ وقت خدا Ú©ÛŒ توجہ پیدا کرنے اور اس Ú©Û’ حضور Ú©Ùˆ درک کرنے میں حیرت انگیز حد تک موٴثرہے Û”

امید و خوف کے پیدا ہونے کے اسباب:

          طبیعی طور پر اختیاری کاموں میں انسان کا انگیزہ نفع Ú©ÛŒ امید اور نقصان کا خوف ہوتا ہے،لیکن نفع Ùˆ نقصان کا دائرہ کافی وسیع ہے Û” بعض افرادکے لئے انہی دنیوی منافع Ùˆ امکانات میں نفع ہے اور بعض افراد Ú©Û’ لئے آخرت کیجزا اوروہاں Ú©ÛŒ نعمتوں میں نفع ہے Û” اسی طرح بعض لوگوں کےلئے مادی اور دنیوی نقصانات مدنظر ہیں اور بعض لوگوں Ú©Û’ لئے اخروی نقصانات اور وہاں Ú©Û’ عذاب Ú©Ùˆ اہمیت حاصل ہے Û” ان دونوں گروہوں سے بالاتر اولیا الہٰی ہیں جن کا نفع حضور الہٰی کا ادراک اور رضوان الہٰی سے لذت کا احساس ہے اور ان کا نقصان اس سعادت Ùˆ کمال سے محروم ہوجانا ہے Û” ان Ú©Ùˆ لقاء اللہ  سے محروم ہونے کا خوف ہوتا ہے اور بیشک یہ خوف دوسروں Ú©Û’ دنیوی یا اخروی نقصانات Ú©Û’ خوف سے زیادہ ہے Û” البتہ حقیقت یہ ہے کہ یہ مطلب ہمارے لئے نا معلوم اور ہمارے فہم Ùˆ ادراک سے دور ہے‘ آیات Ùˆ روایات سے اجمالی طور پر یہ سمجھ میں آتا ہے کہ اس قسم کا خوف بھی موجود ہے Û” (امید ہے خدائے متعال اہل بیت علیہم السلام Ú©Û’ نورانی کلمات سے استفادہ کرنے Ú©ÛŒ برکت سے اس معنی Ú©Ùˆ درک کرنے Ú©ÛŒ توفیق Ùˆ لیاقت عنایت فرمائے)

          بہرحال خوف الہٰی یا وہ خوف جو خود انسان Ú©Û’ توسط سے پیدا ہوتا ہے، جسے خدا دور کر سکتا ہے Û” اس امر کا باعث ہوتا ہے کہ انسان خدا Ú©ÛŒ طرف عمیق توجہ پیدا کرے اور اسی طرح ثواب Ùˆ پاداش Ú©ÛŒ امید اور وہ چیز جو خدا اپنے بندوں Ú©Ùˆ عطا کرتا ہے‘ یا لقاء اللہ کا شوق بھی خدا Ú©ÛŒ طرف زیادہ متوجہ ہونے کا سببہے‘ اگرچہ اکثر لوگوں Ú©Û’ لئے خوف انسان Ú©Ùˆ برانگیختہ کرنے اور وادار کرنے میں نمایاں رول ادا کرتا ہے تاکہ انہیں فعالیت Ú©Û’ لئے مجبور کرے اور غفلت سے باہر نکال کر نفع Ùˆ نقصان Ú©Û’ خطرے سے آگاہ کرے Û” ہر ایک انسان اپنا امتحان Ù„Û’ سکتا ہے جب وہ ایک خطرناک خبر سنتا ہے اور اسے معلوم ہوتا کہ وہ غیر معمولی اور زبردست نقصان سے دو چار ہونے والا ہے‘ تو وہ زیادہ سے زیادہ اس بات Ú©ÛŒ کوشش کرتا ہے کہ کسی طرح وہ اس خطرے Ú©Ùˆ اپنے سے ٹال دے نہ کہ نفع Ùˆ ثواب Ú©ÛŒ توقع کرتا ہے؟

          ہمارے لئے ضرر اور نقصان Ú©Ùˆ دور کرنا نفع حاصل کرنے  سے زیادہ اہم ہے Û” شاید اسی نکتہ Ú©Û’ پیش نظر  قرآن مجید میں انذار (ڈرانے) Ú©Ùˆ تبشیر Ùˆ بشارت سے زیادہ اہمیت دی گئی ہے‘ انبیاء Ú©Ùˆ ”نذیر“ Ú©Û’ عنوان سے ذکر کیا گیا ہے‘ بعض آیتوں میں پیغمبرکو بشارت دینے والا اور ڈرانے والا دونوں ہی صفات سے یاد کیا گیا ہے Û” جیسے اس آیت میں:

          <․․․فَبَعْثَ اللهُ النَّبِیِینَ مُبَشِّرِینَ وَمُنْذِرِینَ․․․“       (بقرہ/Û²Û±Û³)

          ”پھر اللہ بشارت دینے والے اور ڈرانے والے انبیاء بھیجے․․․“

          ایسی جگہیں Ú©Ù… ہیں جہاں پر انبیاء صرف ”بشیر Ùˆ مبشر“ Ú©Û’ عنوان سے ذکر ہوئے ہیں لیکن ان Ú©Ùˆ ”نذیر“ Ú©Û’ عنوان سے زیادہ یاد کیا گیا ہے‘ جیسے آیہ شریفہ:

<تَکَادُ تَمَیِّزُ مِنَ الْغَیظِ کُلَّمَا اُلْقِیَ فِیھَا فَوجٌ سَاٴَلَھُمْ خَزَنَتُھَا اَلَمْ یَا تِکُمْ نَذِیرٌ>․(ملک/Û¸)               

          قریب ہے کہ جہنم غیظ Ùˆ غضب Ú©ÛŒ شدت سے Ù¾Ú¾Ù¹ Ù¾Ú‘Û’ جب بھی اس میں کسی گروہ Ú©Ùˆ ڈالا جائے گا تو داروغہ جہنم ان سے پوچھیں Ú¯Û’ کیا تمہارے پاس کوئی ڈرانے والا نہیں آیا تھا؟



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 next