وفات پيغمبر(ص) کے بعد انحراف کے قطعی شواهد



< فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَی الْحَجِّ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنْ الْہَدْیِ فَمَنْ لَمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلاَثَةِ اٴَیَّامٍ فِی الْحَجِّ وَسَبْعَةٍ إِذَا رَجَعْتُمْ تِلْکَ عَشَرَةٌ کَامِلَةٌ ذَلِکَ لِمَنْ لَمْ یَکُنْ اٴَہْلُہُ حَاضِرِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ۔> [34]

جو شخص حج تمتع کا عمرہ کرے تو اسے جو قربانی میسر آئے وہ کرنا ھوگی اور جس کے لئے قربانی کرنا ناممکن ھو تو اسے تین روزے حج کے زمانہ میں اور سات روزے جب وہ حج سے واپس آئے (رکھنے ھوں گے)اس طرح یہ دس دن پورے ھو جائیں گے یہ حکم اس شخص کے لئے ھے جو مسجد الحرام (مکہ) کے باشندہ نہ ھوں ۔

عمرہ تمتع کی حج کے ساتھ صفت بیان کرنے کا مطلب یہ ھے کہ حج کے مھینوں میں کسی ایک میقات سے احرام باندھنا ھوتا ھے پھر مکہ میں خانہ کعبہ کے طواف کے لئے داخل ھونا ھوتا ھے‘ اور نماز ادا کر نی پڑتی ھے ‘ اس کے بعد صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنی ھوتی ھے اور پھر بال کٹواتے ھیں اس وقت احرام باندھنے کی وجہ سے جو کچھ حرام تھا وہ سب حلال ھو جائے گا۔ پھر اسی حالت پر باقی رھے اور اسی سال حج کے لئے ایک اور احرام باندھ کر عرفات کی طرف نکل جائے وہاں سے مشعر الحرام میں اعمال کے اختتام تک ٹھھرے۔ یھی عمرہ تمتع الی الحج ھے۔

اللہ تعالی Ù†Û’ جو ارشاد فرمایا Ú¾Û’ : 

فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَی الْحَج۔

اس سے مراد یہ ھے کہ جو اس میں متعہ اور لذت پائی جاتی ھے احرام کے محرمات وغیرہ (دونوں احراموں کی مدت کے درمیان) مباح ھوگئے ھیں۔ اب محرم اور غیر محرم میں کسی قسم کا فرق نھیں ھے۔ یہاں تک کہ اپنی بیویوں کو لمس بھی کر سکتا ھے۔ یھی قرآن کی شریعت ھے لیکن حکومت پر مسلط اور قابض بعض اصحاب نے اس کی مخالفت کی ۔احمد بن حنبل ابو موسی سے روایت بیان کرتے ھیں کہ ابوموسی نے متعہ کا فتوی دیا ایک شخص کھنے لگا تیرے بعض فتوے عجیب ھیں کیا تم نھیں جانتے امیر نے اس کے متعلق کیا کچھ نھیں کھاھے۔ ابو موسی کھتا ھے کہ میں حضرت عمر کے پاس گیا اور اس سے پوچھا تو حضرت عمر کھنے لگے جیسا کہ تو جانتا ھے کہ حضرت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے اصحاب نے متعہ کیا لیکن میں اسے ناپسند کرتا ھوں ۔[35]

ابی نضرہ حضرت جابر رضی اللہ سے روایت بیان کرتے ھیں کہ جابر نے کھاابن زبیر تو متعہ سے روکتا ھے لیکن ابن عباس متعہ کرنے کے لئے کھتے ھیں، راوی کھتا ھے کہ ھمارے سامنے یہ سیرت موجود ھے کہ ھم حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت ابوبکر کے زمانے میں متعہ کرتے تھے۔

 Ø¬Ø¨ عمر خلیفہ بنے تو انھوں Ù†Û’ لوگوں Ú©Ùˆ خطبہ دیا اور اس میں انھوں Ù†Û’ کھابے Ø´Ú© رسول اللہ Ú¾ÛŒ رسول ھیں اور قرآن یھی قرآن Ú¾Û’ ان دونوں Ù†Û’ متعہ Ú©ÛŒ اجازت دی تھی اور حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم Ú©Û’ زمانے میں اسی پر عمل بھی ھوتا رھالیکن میں تمھیں ان دونوں سے منع کررھاھوں اور جو شخص متعہ کرے گا، میں اسے سزا دوں گا۔

 Ø§Ù† دونوں میں ایک متعہ النساء Ú¾Û’Û” میرے پاس کوئی ایسا شخص نہ لایا جائے جس Ù†Û’ معینہ مدت Ú©Û’ لئے کسی عورت سے نکاح کیا Ú¾Ùˆ میں اسے پتھروں میں چھپا دوں گا (یعنی سنگسار کردوں گا )اور دوسرا متعہ الحج Ú¾Û’ Û”[36]

بالفاظ دیگر خلیفہ یہ کھنا چاھتے ھیں کہ خدا کا حکم ھے (کہ اس نے اسے جائز قرار دیا ھے) اور میرا یہ حکم ھے (کہ میں اسے ناجائز قرار دیتا ھوں )۔اس سے بڑھ کر (اللہ کے فرمان کی مخالفت کرنے میں)اور بڑا اعتراف کونسا ھوگا اوراس سے بڑی اور کیا جسارت ھو گی !!!۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 next