وفات پيغمبر(ص) کے بعد انحراف کے قطعی شواهد



تونے اپنے لعےن چچا Ú©Ùˆ بلا کرمال Ùˆ دولت سے نوازا جبکہ اس Ú©Ùˆ بلانا تم سے Ù¾Ú¾Ù„Û’ والے لوگوں Ú©ÛŒ سنت اور سیرت Ú©Û’ خلاف تھا اور تو Ù†Û’ رشتہ داری Ú©ÛŒ وجہ سے اسے خمس دے کر دوسرے لوگوں پر ظلم کیا۔  [46]

غنائم کی تقسیم کے حوالہ سے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت اور سیرت یہ تھی کہ اللہ کے لئے پانچواں حصہ اور باقی چار حصے لشکر والوں کے لئے ھوتے اور اس سلسلہ میں کسی کو کسی دوسرے پر کوئی برتری حاصل نھیں تھی۔

اپنی طرف سے کسی کے حصے میں اضافہ نھیں کیا کرتے تھے اور اگر کوئی زیادہ کا مطالبہ کرتا تو اس سے کھتے تھے کہ تم اپنے مسلمان بھائی سے زیادہ حق دار نھیں ھو۔ جب حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے مال غنیمت لایا جاتا آپ اسے اسی دن تقسیم فرما دیتے اور اھل جنگ کو دوحصے اور باقی عربوں میں ایک حصہ بانٹا جاتا۔[47]

مندرجہ بالا مطلب کی روشنی میں صحابہ کرام خلیفہ ثانی سے راضی نہ تھے کیونکہ مال کی تقسیم کے حوالہ سے یہ بعض لوگوں کو دوسروں پر ترجیح دیتے تھے جس کو کسی دوسرے پر کوئی فضیلت ھوتی اسے معتبر قرار دیتے جیسا کہ وہ حضرت نبی خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیگمات اور امہات مومنین کو دوسر ی عورتوں پرترجیح دیتے تھے اسی طرح بدری کو غیر بدری پر مہاجرین کو انصار پر اور مجاھدین کو گھر بیٹھنے والے پر وہ ترجیح دیتے تھے ۔[48]

غلط تقسیم اور مالی تفاوت کی وجہ سے طبعی تفاوت بھی پیدا ھوگیا تھا اور انھوں نے اسلام کے خلاف چلنے کا فیصلہ کرلیا تھااور خلیفہ ثالث کے زمانہ میں تو یہ لوگ خاص طور پر زمانہ جا ھلیت کی طرف پلٹ گئے اس وقت غالب اور مغلوب طبقات پیدا ھوگئے ۔ جب ساری حکومت بنی امیہ کے ہاتھوں میں چلی گئی تو ایسا معلوم ھوتا تھا کہ یہ بوستان فقط قریش کے لئے ھے اور ان کے علاوہ کسی کو اس میں داخل ھونے کاکوئی حق نھیں ھے۔ یہ انحراف قرآن کی روشنی میں شجر ملعونہ کی شکل میں ظاھر ھوا اس کے بعد لوگ غلام بن گئے اور قرآن مجید میں موجود شجرہ ملعونہ کا ثمرہ یزید بن معاویہ اور اس جیسے دوسرے لوگ تھے ۔

اگرحضرت علی علیہ السلام کو حضرت رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات حسرت آیات کے بعد خلافت مل جاتی اور تا حیات آپ کے پاس رھتی اور آپ کی شہادت کے بعد یہ خلافت،امین، طاھر اور نیک لوگوں اور اپنے سچے وارثوں کی طرف منتقل ھوتی رھتی اور اس کے وارث صحیح معنی میں ائمہ ھدی علیھم السلام قرار پاتے تو دنیا کے سامنے اسلام درست تابناک اور روشن چھرے کے ساتھ ظاھر ھوتا۔

جبکہ حضرت علی علیہ السلام کی خلافت بھت کم مدت کے لئے تھی اور آپ کو خلافت اس زمانہ میں ملی جس میں طبعی تفاوت اپنی انتھاء کو پھنچ چکے تھے کمزور لوگ مغلوب بنا لئے گئے تھے ھلاکت میں ڈالنے والی جنگوں کی وجہ سے ھر طرف وحشت ھی وحشت تھی۔

 Ø§Ù† سپاہ سالاروں اور ان Ú©ÛŒ فتوحات پر ترقیاں اور انعامات دئیے جارھے تھے جبکہ اسلام Ú©Û’ صحیح وارثوں اور حقےقی امین لوگوں Ú©Ùˆ پس پشت ڈال دیا گیا جبکہ ان Ú©Û’ علم وعدالت سے لوگوں Ú©ÛŒ مشکلات Ú©Ùˆ حل کیا جاسکتا تھا اور یہ ھستیاں لوگوں Ú©Ùˆ آزادزندگی بسر کرنے Ú©Û’ وسائل فراھم کرسکتیں تھیں۔[49]

۱۰۔حکم بن ابی العاص کو مدینہ واپس بلانا

خلےفہ ثالث کے چچاحکم بن ابی العاص کو مدینہ واپس بلایا گیا حالانکہ اس کو حضرت رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ سے نکال دیا تھا اور اس پر لعنت کی تھی ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 next