حديث ثقلين کی تحقيق



غیتہ النمانی([26])اور ارجح المطالب ([27])میں اس حدیث کے مثل روایت کی گئی ھے۔ ان مواقع میں جھاں آپ نے حدیث ثقلین ارشاد فرمائی حالت بیماری بھی ھے جس میں آپ کی وفات ہوئی۔

چنانچہ ینابیع المودة میں (علّامہ قندوزی) نے لکھا ھے کہ: ابن عقدہ نے عروة بن خارجہ کے طریقے سے جناب زھرا سلام اللہ علیھا سے روایت کی ھے آپ نے فرمایا: کہ میں نے اپنے والد بزرگوار سے (اس بیماری کی حالت میں جو وفات کا باعث بنی) سنا آپ نے فرمایا: (جبکہ آپ کا حجرہٴ مبارک اصحاب سے بھرا ہوا تھا) اے لوگو! عنقریب قبض روح کے بعد تمھارے درمیان سے چلا جاوٴں گا ایک خاص بات کھنا چاھتا ھوں تاکہ تمھارے لئے حجت رھے۔

جان لو کہ۔ در حقیقت تمھارے درمیان اپنے خدا کی کتاب اور اپنی عترت کو بطور جانشین چھوڑ کر جارھا ھوں اس کے بعد حضرت علی علیہ السلام کے دست مبارک کو پکڑ کر فرمایا: یہ علی عليه السلام قرآن کے ساتھ ھیں اور قرآن علی عليه السلام کے ساتھ ھے۔

دونوں ایک دوسرے سے جدا نھیں ھوں گے اور ان میں فاصلہ نھیں ہوگا یھاں تک کہ روز محشر حوض کوثر پر مجھ سے ملاقات کریں گے۔ اس وقت میں تم لوگوں سے سوال کروں گا کہ تم لوگوں نے ان دونوں کے بارے میں میرے ساتھ کیا برتاوٴکیا([28])

ابن حجر کا کھنا ھے کہ۔ ([29])بعض سندوں میں ذکر کیا گیا ھے کہ رسول اکرم (ص) نے حدیث ثقلین کو عرقہ میں بیان فرمایا ھے۔

دوسرے طریقے سے روایت کی گئی ھے کہ رسول اکرم (ص) نے اس کو غدیر خم میں بھی بیان فرمایا ھے۔ اسی طرح اور ایک طریقہ سے روایت ھے کہ رسول اکرم (ص) نے اس کو مدینے میں ذکر فرمایاھے جبکہ آپ بستر بیماری پر تھے اور اصحاب سے آپ کا حجرہٴ مبارک بھرا ہوا تھا۔ دوسری جگہ کھا گیا ھے کہ طالٴف سے واپسی پر آپ نے حدیث ثقلین کو بیان کیا ھے جبکہ آپ کھڑے ہوئے خطبہ ارشاس فرما رھے تھے۔

پیغمبر اسلام کا مختلف طریقوں سے حدیث ثقلین کا فرمانا کسی قسم کے منافات کا سبب نھیں ھے۔ اس لئے کہ رحلت پیغمبر کے بعد لوگوں کی ھدایت و رھبری کے لئے قرآن و عترت کی اھمیت کے پیش نظر آپ نے اس حدیث کو مختلف مواقع پر متعدد بار فرمایا ھے۔ ([30])

اور اسی طرح سے اس کو بار بار ھرانا نھایت ھی سود مند تھا کیونکہ یہ کام:

اولاً: قرآن و عترت کی اھمیت کی خاطر تھا۔ و ثانیاً: کسی کے لئے کوئی عذر کا موقع نہ چھوڑنے کی خاطر تھا۔ جیسا کہ خود پیغمبر نے اس طرف اشارہ فرمایا ھے (ایسا امر تمھارے لئے بیان کرنا چاھتا ھوں کہ تمھارے لئے حجت رھے)۔

حدیث ثقلین(مختلف زمان و مکان میں مثلاً عرفہ، منیٰ، غدیر خم، اور آخری خطبہ جو کہ رسول اکرم (ص) نے وفات سے پھلے ارشاد فرمایا تھا) لوگوں کے عظیم الشان رھبر کی جانب سے اس لئے بیان ہوئی کہ آپ کو اسلام و مسلمین کی حیات پر اختیار تام حاصل تھا۔ لھٰذا ( رسول خدا(ص) کی جانب سے) اس حدیث کا بار بار دھرانا جیسا کہ ذکر ہو چکا ھے خاص طور سے ایام ومقامات پر جبکہ شدت تمازت آفتاب زوروں پر تھی اور لوگوں کا اژدھام تھا (یعنی میدان غدیر خم میں) خصوصاً آپ کی حیات طیبہ کے آخری ایام میں اور آپ کا اپنی وفات کے بارے میں مطلع کرنا تاکہ مسلمان اس کی اھمیت کو محسوس کریں۔ اور برادرن اسلامی (خدا ان کے عزت وشرف میں اضافہ کرے) پر واجب ھے کہ زیادہ سے زیادہ اس حدیث کے مطالب توجہ فرمائیں اور اس پر عمل پیرا ھوں ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 next