حديث ثقلين کی تحقيق



۱۲۔ رسول اکرم (ص) (ص) نے جحفہ میں دوران خطبہ ارشاد فرمایا: کیا میں تمھارے نفسوں پر تم سے زیادہ حق نھیں رکھتا؟ سب نے یک زبان ہو کر کھا کیوں نھیں۔ یا رسول اللہ۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا: پس یقینا تم کو دو حقیقت و واقیعت کے بارے میں ذمہ دار سمجھتا ھوں ۔ قرآن اور میری عترت۔ ([47])

 

چوتھی فصل

حدیث کی افادیت

حدیث ثقلین سے حسب ذیل مطالب کا استفادہ ہوتا ھے۔

۱۔ پیغمبر اکرم کا اپنی موت کے بارے میں اطلاع دینا کہ جس پر بھت ساری رویات دلالت کرتی ھیں مثلاً آپ نے فرمایا: (میری موت نزدیک ھے اور میں اس کے لئے آمادہ ھوں ) ([48])

نیز آپ نے فرمایا: (خدائے عزوجل نے مجھے بذریعہ وحی اس بات کی اطلاع دی ھے کہ میری موت کا وقت آچکا ھے۔) ([49])

اپنی موت کے بارے میں پیغمبر کا خبر دینا اس بات کا غماز ھے کہ رسول اپنی رحلت کے بعد اپنی امت کے وظیفوں اورذمہ داریوں کو بیان فرمانا چاھیتے تھے تاکہ امت مسلمہ کو ان کے حال پر نہ چھوڑیں اور ایسی باتیں قرین عقل ھیں۔

اور حقیقت حال یہ ھے کہ نبی اکرم جیسی عظیم شخصیت کی حامل بابرکت ذات اس بات پر کیسے راضی ہوجاتی کہ ان کی وفات کے بعد امت مسلمہ کو ان کے حال پر چھوڑ دیں۔ جبکہ آپ کو اسلام پھیلانے اور پھنچانے میںبے شمار مصائب وآلام سے دوچار ہونا پڑا ھے۔ لھٰذا حکمت خدا اور درایت رسول خدا(ص) کا ان باتوں کے لئے راضی ہونا بعید از عقل ھے۔

۲۔ خدا کی کتاب (قرآن) اور میری عترت طاھرہ کا امت کے درمیان چھوڑنا ان کی خلافت و جانشینی کے معنیٰ میں ھے اس بنا پر قرآن و عترت رسول، امت مسلمہ کے لئے رسول کے جانشین وخلیفہ ھیں اور ان کا آپس میں ھم آھنگ ہونا اور متضادنہ ہونا رسول کے قائم مقام ہونے پر دلالت کرتا ھے۔ اسی وجہ سے بعض روایات میں ان دونوں کو خلیفہ کے لفظ سے یاد کیا گیا ھے۔

احمد بن خنبل نے اپنی مسند میں زید بن ثابت سے روایت کی ھے کہ رسول اکرم (ص) (ص) نے فرمایا: در حقیقت میں نے تمھارے درمیان دو خلیفہ رکھ چھوڑا ھے۔([50])؟؟

ابن سعید خدری سے روایت ھے کہ رسول اکرم (ص) (ص) کا ارشاد ھے کہ۔ میں تمھارے درمیان دو قیمتی چیزیں بطور جانشین چھوڑ رھا ھوں ۔ قرآن اور عترت۔([51])



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 next