حديث ثقلين کی تحقيق



عترت سے مراد جیسا کہ صاحب نھایہ نے نقل فرمایا ھے۔صرف وہ افراد ھیں جو رسول اللہ کے منتخب اور نھایت ھی نزدیکی ھیں اور یہ بات یقینی طور سے کھی جاسکتی ھے کہ دوسرے اھل خاندان اس سے خارج ھیں یھاں پر موضوع سے متعلق افراد سارے اھل خاندان نھیں ھیں۔

اس لئے کہ روایت میں جو صفات بیان کی گئی ھیں کہ (وہ قرآن کے ھم پلہ سمجھنا اور معیار حق وھدایت جاننا)عموم افراد کو داخل کر کے ممکن نھیں ھے،بلکہ (عترت)سے مراد (متعدد رویات پیش نظر) صرف اھل بیت عليهم السلام ھیں۔ اور یہ وہ افراد ھیں جن کی طھارت کا اعلان قرآن نے کیاھے یہ پاک اور معصوم رھبران دین ھیں۔

ابن ابی الحدید کا کھنا Ú¾Û’Û” رسول اکرم(ص)  Ù†Û’ عترت Ú©Ùˆ لوگوں Ú©Û’ سامنے پہچنوا دیا کہ کون لوگ ھیں! جب آپ Ù†Û’ فرمایا:درحقیقت تمھارے درمیان دو گرانقدر چیزیں Ú†Ú¾ÙˆÚ‘ کر جارھا Ú¾ÙˆÚº اس Ú©Û’ بعد فرمایا:(اور عترت جو کہ میرے اھل بیت عليهم السلام ھیں)اور دوسرے مقام پر اھل بیت Ú©Û’ مسئلہ Ú©Ùˆ واضح کر دیا جس وقت زیر کساء ان Ú©Ùˆ جمع کیا اور جب آیہٴ تطھیر نازل ہوئی۔([70]) آپ Ù†Û’ فرمایا:خدایا، میرے اھل بیت عليهم السلام ھیں لہٰذ ان سے رجس Ú©Ùˆ دور رکھ۔ ([71])

جر جانی شافعی متوفی ۳۶۵ ھ نے ابی سعید سے روایت کی ھے کہ آیہٴ تطھیر پانچ افراد کی شان میں نازل ہوئی ھے۔ رسول خدا(ص) ، علی عليه السلام، فاطمہ عليه السلام،حسن عليه السلام حسین عليه السلام۔([72])

ذھبی Ù†Û’ تلخیص مستدرک میں ام سلمہ سے روایت Ú©ÛŒ Ú¾Û’ کہ۔ آیت تطھیر میرے گھر میں نازل ہوئی پس رسول خدا(ص)  Ù†Û’ علی عليه السلام، فاطمہ عليه السلام،حسن عليه السلام،حسین عليه السلامکو جمع کر Ú©Û’ فرمایا: خدا یا یہ میرے اھل بیت عليهم السلام ھیں۔ ام سلمہ Ù†Û’ عرض Ú©ÛŒ یا رسول اللہ کیا میں اھل بیت میں سے نھیں Ú¾ÙˆÚº Û” تو آپ Ù†Û’ فرمایا: تم خیر پر ہو۔ اھل بیت یہ ھیں (جو افراد داخل کساء ھیں)خدا یا میرے اھل خاندان لایق قدر ھیں۔([73])

اس کے علاوہ بھت سی روایات ھیں جو اس بات پر دلالت کرتی ھیں کہ آیہٴ تطھیر کے مصداق اھل بیت عليهم السلام رسول کے خاص اھل خاندان ھیں۔

نیز آیہٴ مباھلہ کی تفسیر اھل بیت عليهم السلام کو معین کرتی ھے۔ ([74]) مسلم نے اپنے اسناد کے ذریعہ سے روایت کی ھے کہ جب آیہٴ مبا ھلہ نازل ہوئی تو رسول نے علی عليه السلام، فاطمہ عليه السلام حسن، حسین کو طلب کر کے فرمایا: خدایا یہ میرے اھل بیت ھیں۔([75])اسی بنا پر عبقات الانوار میں نقل ہوا ھے کہ بزرگان اھل سنت نے حدیث ثقلین کی بنا پر اھل بیت کی سر براھی کو قبول کیا ھے۔

انھوں Ù†Û’ Ú¾ÛŒ کھا Ú¾Û’ کہ جب حکیم ترمذی Ù†Û’ کھا کہ رسول خدا(ص)  Ú©Ø§ یہ فرمان کہ ( قرآن وعترت ایک دوسرے سے جدا نھیں Ú¾ÙˆÚº Ú¯Û’ یھاں تک کہ حوض کوثر پر Ú¾Ù… سے ملاقات کریں Ú¯Û’ ) یہ اس بات پر دلالت کرتی Ú¾Û’ کہ صرف یھی افراد ملت مسلمہ Ú©Û’ سر پرست وولی ھیں کوئی دوسرا نھیں۔

انھیں سے روایت ھے کہ سبط ابن جوزی نے حدیث ثقلین کو تذکر ة الخواص میں(تذکرة الائمة) کے ضمن میں بیان کیا ھے۔ ([76])

دوسری گنجی شافعی ھیں جنھوں نے کفایة الطالب میں زید ابن ارقم کی حدیث اور اس کی تفسیر جس میں یہ کھا ھے کہ اھل بیت عليهم السلام وہ ھیں کہ جن پر صدقہ حرام ھے۔ اور آگے کھتے ھیں کہ۔ حقیقت یہ ھے کہ اھل بیت عليهم السلام کے سلسلے میں زید کی تفسیر صحیح نھیں ھے۔ اس لئے کہ زید کی تفسیر یہ ھے کہ اھل بیت عليهم السلام وہ ھیں کہ جن پر صدقہ بعد رسول حرام ھے اور صدقہ کا حرام ہونا ایک عام کلیہ ھے جو حیات رسول اور بعد حیات رسول دونوں پر صادق آتا ھے اور یہ بات مذکورہ افراد کے لئے مخصوص نھیں ھے کیونکہ فرزندان مطلب پر صدقہ حرام تھا۔ مزیدفرماتے ھیں۔ صحیح یہ ھے کہ اھل بیت عليهم السلام سے مراد علی و فاطمہ وحسن حسین علیھم السلام ھیں جیسا کہ مسلم نے اپنی اسناد کے ساتھ عائشہ سے روایت کی ھے۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 next