حديث ثقلين کی تحقيق



[49] اِن اللہ عزوجل اوحیٰ انی مقبوض۔

[50] اِنی تارک فیکم خلیفتین۔ مسند احمد بن خنبل جلد ۵ صفحہ ۱۸۲۔ ۱۸۹ ینابیع المودة صفحہ ۳۸

[51] ایھاالناس اِنی ترکت فیکم الثقلین خلیفتین۔ نفحاالازھار جلد ۱ صفحہ ۴۵۹ از تفسیر انوری (مخلوط)

[52] اِنی مخلف فیکم الثقلین سمطة النجوم۔ العوالی، جلد ۲ صفحہ۵۰، نفحات الازھار جلد ۲ صفحہ ۱۰۹

[53] قد خلفت فیکم الثقلین۔ پنابیع المودة صفحہ ۳۹

[54] قیاس سے مراد۔قیاس مستنبط العلة یعنی جب مقید آیات واحادیث میں کسی قسم Ú©ÛŒ علت نہ پائے تو اپنے پاس سے ایک علت Ú¯Ú¾Ú‘ Ù„Û’ØŒ رسول اکرم(ص)  Ù†Û’ ارشاد فرمایا:دین میں قیاس نہ کرو کیونکہ قیاس Ú©Û’ ذریعہ دین Ú©Ùˆ نھیں سمجھا جا سکتا اور پھلا وہ شخص جس Ù†Û’ قیاس کیا تھا ابلیس تھا،آپ Ù†Û’ فرمایا:جو کوئی دین میں قیاس کرے گا گویا اس Ù†Û’ مجھ پر افترا پردازی کی۔ایک دفعہ ابو یسف اھل سنت Ú©Û’ معروف فقیہ Ù†Û’ دوران حج امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے ملاقات Ú©ÛŒ اور عرض کی۔آپ کیا فرماتے ھیں:اس مسئلہ Ú©Û’ بارے میں کہ اگر مُحرم کجاوے میں سوار Ú¾Û’ تو کیا سایہ میں جا سکتا Ú¾Û’Û” آپ Ù†Û’ فرمایا:نھیں۔ اس Ù†Û’ کھا اگر خیمہ میں Ú¾Û’ تو کیا خیال ھے؟آپ فرمایا:ھاں۔

[55] استحسان کا معنی یہ ھے کہ کسی حکم کا اثبات اور صورت میں کرے کہ اس کو وہ حکم پسند ھے بغیر اس کے کہ اس پر کوئی شرعی دلیل ہو۔

[56] ابن عبد البر نے کتاب جامع بیان العلم و فضلہ میں لکھا ھے کہ۔ عمر بن خطاب نے سنت کو لکھنا چاھا مگر پھر ان کا نظریہ تبدیل ہو گیا لھٰذا انھوں نے تمام (دور و نزدیک کے)شھروں میں یہ حکم لکھ بھیجا کہ جتنی چیزیں بھی سنت سے متعلق لکھی گئی ھیں ان کومٹا دیا جائے۔جامع بیان العلم جلد ۱صفحہ ۶۵ نقل از کتاب۔ فاسئلو اھل الذکر۔سماوی تیجانی صفحہ ۶۱تا۲۳۔

[57] عمر بن عبد العزیز جب حکومت پر قابض ہوا تو اس نے ابوبکر حزمی سے خواھش ظاھر کی کہ احادث و سنت نبوی اور عمر بن الخطاب کی باتوں کو لکھ ڈالے۔ کتاب سنت واقعی جلد۱ صفحہ ۹۴۔

[58] امام جعفرصادق علیہ السلام نے فرمایا:کہ ھمارے پاس ایک ایسی مکمل کتاب ھے جس کو طول ستر (۷۰) ھاتھ ھے پیغمبر کی زبانی امیر المومنین(ع) عليه السلام کی تحریریں ھیں اور کوئی ایسا حلال و حرام نھیں ھے کہ لوگ اس کی ضرورت محسوس؟؟ کرتے ھوں اور اس میں نہ ہواور ھر طرح کے حکم حتی ھلکی سی خراش کے بارے میں بھی حکم موجود ھے۔ اصول کافی جلد ۱ صفحہ ۲۳۹۔ کتاب بصائرالدرجات صفحہ ۱۴۵۔ ۱۴۴۔ بجاری نے خود اپنی صحیحہ میں لکھا ھے کہ یہ کتاب علی عليه السلام کے پاس تھی اور اس بات کا کئی باب میں تکرار بھی کیا ھے۔ لیکن اپنی عادت کے تحت ان مطالب کو کسی بھی فصل یا باب میں ذکر نھیں کیا ھے۔۔ صحیح بخاری جلد ۱ صفحہ ۳۶ صحیح بخاری جلد۲ صفحہ ۲۲۱ جلد۴ صفحہ ۶۷ صحیح مسلم جلد ۴ صفحہ ۱۱۵۔ اھل سنت واقعی جلد ۱ صفحہ ۸۴۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 next