حديث ثقلين کی تحقيق



اس کا ایک سرا تمھارے ھاتھ میں ھے اور دوسرا سرا خدا کے ھاتھ میں ھے۔([109]) یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نھیں ھوں گے یھاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے ملاقات کریں گے۔ ([110])جب تک ان سے متمسک رہوگے ھر گز گمراہ نہ ہوگے۔ ([111]) علی عليه السلام قرآن کے ساتھ ھیں اور قرآن علی عليه السلام کے ساتھ ھے یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نھیں ہوگے۔ ([112])ان پر سبقت لے جانے کی کوشش نہ کرو ورنہ ھلاک ہو جاوٴ گے اور ان کے سایہ ٴ عاطفت سے دور نہ رہو ورنہ تباہ ہو جاوٴ گے اھل بیت عليهم السلام کو کشتی ٴ نوح کی مانند کھنا ستارگان آسمانی سے تشبیہ دینا قرآن واھل بیت عليهم السلام کو خلیفہ رسول بتانا۔ اس کے علاوہ دیگر شواھد اس بات کی غماز ھیں کہ خدا اور ان کے درمیان ایک خاص رابطہ ھے۔ اور یہ کہ ان لوگوں کی امداد غیبی کی تائید کی گئی ھے۔ ان کا یہ خاص رابطہ انھیں دوسرے لوگوں سے ممتا ز رکھتا ھے۔ اسی وجہ سے ھم کھتے ھیں۔ ھمارے نزدیک جو امامت ھے وہ ایک سنت کے نزدیک خلافت خلفا سے جدا ھے اس لئے کہ دونوں کے درمیان تفاوت ذاتی ھے ھمارے نزدیک حقیقت امامت حقیقت نبوت ھے دونوں کے درمیان واحد فرق وحی کے نزول کا ھے۔ اس لئے کہ وحی صرف انبیاء ورسل سے مخصوص ھے ھر چند کہ الٰھی وغیبی امداد کا سلسلہ باقی ھے۔([113])

ھادیان دین تمام الٰھی ذمہ داریوں کو ادا کرنے میں نبی و پیغمبر کے قائم مقام ھیں۔اور امامت کے بارے میں یہ نظریہ اھل سنت کے نظریئے کے بالکل خلاف ھے کیونکہ ان کے نزدیک ظاھری سیاست و رھبری (ھی امامت ھے )عدالت و عصمت کی کوئی شرط نھیں ھے۔ بھر حال حدیث ثقلین امامت کے سلسلہ میں آل محمد کے لئے جو کہ شیعی نظریہ ھے اس کی تائید و تصدیق کرتی ھے اور یہ (آل محمد )سیاسی، دینی تمام امور میں پیغمبر کی مانندھیں۔

بس فرق اتنا ھے کہ ھر بزرگوار قوانین اسلام کو پیغمبر سے حاصل کرتے ھیں اور تمام امور میں ان کا اتباع کرتے ھیں اور انھیں کے نور سے فیضیاب ہوتے ھیں اور آپ کی امت کے لئے آپ کے جانشین ھیں۔لھٰذا تمام صفات و کمالات پیغمبر آل محمد عليهم السلام سے مخصوص ھیں لوگوں کی رھبری وحکومت ان کی صفات کا ایک جز ھے لھٰذا حقیقت امامت کے سلسلے میں جو ھمارا نظریہ ھے وہ برادران اھل سنت کے نظریئے سے بالکل الگ ھے۔ حدیث ثقلین ھمارے (شیعی)ٌ نظریئے کے مطابق ھے اور عقل ودلائل عقلی ھمارے اس نظریئے کی تائید کرتی ھیں۔

دوسروں کے مقابل اعتقادی مسائل میں شیعیت کا امتیاز یہ ھے کہ غیبی رابطہ اور عوام الناس کے لئے آسمانی دروازوں کے کھلنے کا سبب آل محمد عليهم السلام کو جانتے ھیں۔

امام رضا علیہ السلام نے فرمایا:بے شک خدا بندوں کے امور کو انجام دینے کے لئے جب کسی بندے کا انتخاب کرتا ھے تو اس کو شرح صدر عطا کرتا ھے، حکمت کے چشمہ کو اس کے دل میں جاری کردیتا ھے، اس کو علم ودیعت کرتا ھے پھر وہ جواب دینے میں پیچھے نھیں رھتا اور حق وحقیقت کو بیان کرنے میں عاجز وپریشان نھیں ہوتا۔ ([114])

۱۰۔بے شک عترت طاھرہ کی پیروی اسی طرح واجب ھے جس طرح قرآن کا اتباع فرض ھے۔ اور حدیث ثقلین سے یھی بات سمجھ میں آتی ھے۔ لھٰذا وہ محبت و مودت جو ان کی پیروی سے ھم آھنگ نہ ہوبے سود ھے۔

اھل بیت عليهم السلام کو قرآن کے مساوی وھم پلہ قرار دینا سبقت لے جانے اور پیچھے رہ جانے سے روکتا ھے اور آپ کا یہ فرماناکہ(اگر ان دونوں سے متمسک رھے تو ھرگز گمراہ نہ ہوگے)اس محبت پر جو اطاعت کے شانہ بشانہ ہو دلالت کرتا ھے۔

اور یہ بات اظھر من الشمس ھے کہ عترت طاھرہ سے تمسک کا مطلب ان کے احکامات ونواھی پر عمل کرنا اور ان کی سیرت پاک پر عمل پیرا ہونا ھے۔

یھی وجہ Ú¾Û’ کہ تفتازنی Ú©Û’ حوالے سے یہ بات نقل Ú©ÛŒ جاتی Ú¾Û’ کہ حدیث ثقلین Ú©Û’ بیان Ú©Û’ بعد کھا ھے۔کیا تم لوگ نھیں دیکھ رھے ہو کہ رسول اکرم(ص)  Ù†Û’ اھل بیت عليهم السلام Ú©Ùˆ کتاب خدا سے متصل رکھا Ú¾Û’Û” جبکہ حقیقت یہ Ú¾Û’ کہ قرآن سے تمسک ضلالت Ùˆ گمراھی سے نجات کا ذریعہ اور قرآن سے تمسک کا مطلب یہ Ú¾Û’ کہ اس Ú©Ùˆ Ù¾Ú©Ú‘Û’ رھنے، اس Ú©Û’ علم وھدایت سے مستفید ہونے Ú©Û’ سوا Ú©Ú†Ú¾ نھیں Ú¾Û’Û” پھر عترت سے تمسک بھی اس Ú©Û’ سوا Ú©Ú†Ú¾ نھیں Ú¾Û’Û” ([115])

ابن حجر کھتے ھیں: بےشک پیغمبر نے (لوگوں) کو ان کی اطاعت و پیروی اور ان سے تمسک وحصول علم کی بھت تاکید کی ھے۔ ([116])



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 next