وھابیوں کے عقائد



جیسا کہ معلوم ھے کہ صدر اسلام کے بعد سے قبروں کے اوپر عمارتیں بنانا اور قبروں پر تختی لکھ کر لگانا رائج تھا، چنانچہ علامہ امین ۺ اس سلسلہ میں کھتے ھیں کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جسد مبارک کو ایک حجرے میں دفن کیا گیا اور اگر قبرکے اوپر عمارت کا وجود جائز نھیں تھا تو پھراصحاب رسول اور سلف صالح نے اس حجرے کو کیوں نہ گرایا ،جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر تھی،اور نہ صرف یہ کہ اس حجرے کو نھیں گرایا بلکہ چند بار اس حجرے کو دوبارہ تعمیر کیا گیا۔ [89]

اسی طرح ھارون الرشید نے حضرت امیر الموٴمنین علی ں کی قبر مبارک پر گنبد بنوایا، اور ایسی ھی دوسری عمارتیں مختلف قبروں پر بنائی گئیں، اور کسی نے بھی اعتراض نہ کیاجن کا تذکرہ تاریخی کتب میں موجود ھے ۔

مجموعی طورپر قبروں گنبد وبارگاہ بنوانا تمام اسلامی فرقوں Ú©ÛŒ سیرت رھی Ú¾Û’ اور ابن تیمیہ اور اس Ú©Û’ مریدوں Ú©Û’ علاوہ کسی Ù†Û’ بھی اس Ú©ÛŒ مخالفت نھیں کی، خود ابن تیمیہ Ù†Û’ بھت سی قبروں Ú©Û’ گنبد Ú©ÛŒ طرف اشارہ کیا Ú¾Û’ جو اس Ú©Û’ زمانہ میں لوگوں Ú©ÛŒ نظر میں محترم او رمشخص تھے، مثلاً مدینہ منورہ میں وہ گنبد جوجناب عباس (پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ وسلم Ú©Û’ چچاکی قبر)پر تھا اس Ú©Û’ نیچے سات افراد یعنی، جناب عباس،امام حسن ØŒ علی ابن الحسین (امام زین العابدین)ØŒ ابو جعفر محمد ابن علی (امام باقر) اور جعفر بن محمد (امام صادق)   علیهم السلام دفن ھیں، کھتے ھیں کہ فاطمہ زھرا   = Ú©ÛŒ قبر بھی اسی گنبد Ú©Û’ نیچے Ú¾Û’ اور امام حسین Úº کا سر بھی یھیں دفن هوا Ú¾Û’Û” [90]

ابن تیمیہ اور اس کے اصحاب کھتے ھیں کہ قبروں پر عمارت بنانے کی بدعت پانچویں صدی کے بعد پیدا هوئی ھے اور جس وقت بھی ان کو مسمار کرنے کا موقع آجائے اس کام میں ایک دن کی بھی تاخیر کرنا جائز نھیں ھے، کیونکہ یہ عمارتیں لات وعزّیٰ کی طرح ھیں بلکہ شرک کے لحاظ سے لات و عزّیٰ سے بھی کھیں زیادہ ھیں۔ [91]

قبروں پر صاحب قبر کے نام کی تختی لگانا آج تک رائج ھے ، کیونکہ ایسے شواہد موجود ھیں جن سے یہ ثابت هوتا ھے کہ سن ہجری کی ابتدائی صدیوں میں قبروں پر پتھر اور تختیاں لگائی جاتی تھیں۔

مثلاً مسعودی حضرت امام جعفر صادق ںکی وفات کا تذکرہ کرتے هوئے لکھتا ھے کہ آپ بقیع میں دفن ھیں جھاں آپ کے پدر بزرگوار اور جد امجد بھی دفن ھیں اور آپ کی قبر پر مرمر کا ایک پتھر ھے جس پر یہ عبارت لکھی ھے:

”بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ مِبُیْدِ الاُمَمِ وَمُحْیِ الرَّمَمِ، ہَذَا  قَبْرُ  فَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللّٰہِ (ص) سَیِّدَةِ نِسَاءِ الْعَالَمِیْنَ، وَقَبْرُ الْحَسَنِ بْنِ عَلِیٍّ وَعَلِیِّ بْنِ الْحُسَیْنِ بْنِ عَلِیٍّ وَقَبْرُ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِیٍّ وَجَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَلَیْهم السَّلاٰمُ“[92]

ابن جبیر (چھٹی صدی ہجری کا مشهور ومعروف سیّاح)کھتا ھے کہ بقیع میں جناب فاطمہ بنت اسد کی قبر پر اس طرح لکھا هوا ھے:

”مَاضَمّ قَبْرُ اَحَدٍ کَفَاطِمَةَ بِنْتِ اَسَد رَضِی اللّٰہُ عَنْها وَعَنْ بَنِیْها“

( فاطمہ بنت اسد کی قبر کے مانند کسی دوسرے کو ایسی قبر نصیب نھیں هوئی )



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 63 64 65 66 67 68 69 70 next