وھابیوں کے عقائد



اسی طرح قبروں پر اور ان کے اطراف میں عمارتیں بنانا بھی شیعوں سے مخصوص نھیں ھے، بلکہ شروع ھی سے یہ کام مختلف اسلامی فرقوں سے چلا آرھا ھے، اور قبروں پر عمارتوں کا رواج تھا:

ابن خلکان کھتا Ú¾Û’:  Û´ÛµÛ¹Ú¾ میں شرف الملک ابو سعد خوارزمی ،ملک شاہ سلجوقی Ú©Û’ مستوفی (حساب دار) Ù†Û’ ابو حنیفہ Ú©ÛŒ قبر پر ایک گنبد بنوایا ØŒ اور اس Ú©Û’ برابر میں حنفیوں Ú©Û’ لئے ایک مدرسہ بھی بنوایا ØŒ ظاھراً ابو سعد Ù†Û’ مذکورہ عمارت ”آلُپ ارسلان سلجوقی“ Ú©ÛŒ طرف سے بنوائی Ú¾Û’[103]

اسی طرح ”ابن عبد البِرّ“ (متوفی  Û´Û¶Û³Ú¾)Ú©ÛŒ تحریر Ú©Û’ مطابق ØŒ جناب ابو ایوب انصاری Ú©ÛŒ قبر قسطنطیہ (اسلامبول) Ú©ÛŒ دیوار Ú©Û’ باھر ظا ھرھے اور لوگوں Ú©ÛŒ تعظیم کا مر کزھے اور جب بارش نھیں هوتی تو وھاں Ú©Û’ مسلمان ان سے متوسل هوتے ھیں۔[104]

ابن الجوزی  Û³Û¸Û¹Ú¾ Ú©Û’ واقعات Ú©Ùˆ قلمبند کرتے هوئے کھتا Ú¾Û’ کہ اھل سنت مُصعب بن الزبیر Ú©ÛŒ قبر Ú©ÛŒ زیارت Ú©Û’ لئے جاتے ھیں جس طرح شیعہ حضرات امام حسین Úº Ú©ÛŒ قبر Ú©ÛŒ زیارت Ú©Û’ لئے جاتے ھیں۔[105]

ابن جُبیر، چھٹی صدی کا مشهور ومعروف سیاح اس طرح کھتا ھے کہ مالکی فرقہ کے امام، امام مالک کی قبر قبرستان بقیع میں ھے ، جس کی مختصر سی عمارت اور چھوٹا ساگنبد ھے اور اس کے سامنے جناب ابراھیم فرزند رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر ھے جس پر سفید رنگ کا گنبد ھے۔ [106]

مذاھب اربعہ Ú©Û’ بزرگوں Ú©ÛŒ قبروں پر گنبدهونا ØŒ ان پر عمارتیں بنانا،ان Ú©Û’ لئے نذر کرنا ØŒ وھاں پر اعتکاف کرنا ،ان سے توسل کرنا ،صاحب قبر Ú©ÛŒ تعظیم وتکریم کرنا او روھاں دعا Ú©Û’ قبول هونے کا اعتقاد رکھنا بھت سی تاریخی کتابوں میں موجود Ú¾Û’ اور اس وقت بھی قاھرہ، دمشق اور بغداد اور دوسرے اسلامی علاقوں میں ان Ú©Û’ بھت سے نمونے اور قبروں پر مراسم هوتے ھیں جنھیںآج بھی دیکھا  جاسکتا Ú¾Û’Û”

لیکن یہ کہنا کہ شیعوں نے سب سے پھلے قبروں پرمسجدیں بنائی ھیں ، یعنی قبروں کو مسجد قرار دیا ھے تو اس سلسلہ میں چند چیزوں کی طرف اشارہ کرنا ضروری ھے:

۱۔ شیعہ عقیدہ کے مطابق قبرستان میں نماز پڑھنا مکروہ ھے لہٰذا مقبروں کو مسجد کے حکم میں جاننا ان کے عقیدوں کے مطابق نھیں ھے، (جبکہ ھم نے ابن تیمیہ کے عقائد میں اس بات کو بیان کیا ھے کہ امام مالک مقبروں میں نماز کو جائز جانتے تھے اور ابوحنیفہ اور دوسرے لوگ قبرستان میں نماز پڑھنے کو مکروہ جانتے تھے)

۲۔ شیعہ حضرات جو مسجدیں قبروں کے پاس بناتے ھیں وہ مقبروں سے کچھ فاصلہ پر اور مقبروں سے جدا هوتی ھیں، وہ مسجد راٴس الحسینںجس پر بعض حضرات خصوصاً صاحب فتح المجید، شدت سے اعتراضات کرتے ھیں مقبرہ سے بالکل جدا ھے اور صرف مقبرہ کے ایک در سے مسجد میں وارد هوا جاسکتا ھے، یعنی نماز پڑھنے کی جگہ جدا ھے اور زیارت گاہ جدا ھے، خلاصہ یہ کہ جو مسجدیں شیعوں نے مقبروں کے پاس بنائی ھیں ان کا فاصلہ مسجد النبوی اور قبر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فاصلے سے زیادہ ھے۔

Û³Û” قبروں Ú©Û’ پاس مسجدیں بنانا شیعوں سے مخصوص نھیں Ú¾Û’ بلکہ مختلف فرقے قدیم زمانہ سے قبروں Ú©Û’ پاس مسجدیں بناتے آئے ھیں، منجملہ ابن جوزی Ú©ÛŒ تحریر Ú©Û’ مطابق (محرم  Û³Û¸Û¶Ú¾ Ú©Û’ واقعات Ú©Û’ ضمن میں) اھل بصرہ Ù†Û’ یہ دعویٰ کیا کہ ایک تازہ مردہ (ان Ú©Û’ عقیدے Ú©Û’ مطابق زُبیر بن العَوّام ) Ú©Ùˆ قبر سے نکالا اور اس Ú©Û’ بعد اس Ú©Ùˆ کفن پہنایا اور زمین میں دفن کردیا، اور ابوالمِسک Ù†Û’ اس Ú©ÛŒ قبر پر ایک عمارت بنائی اور اس Ú©Ùˆ مسجد قرار دیدیا۔ [107]اسی طرح بصرہ میں بھی طلحہ (جو کہ جنگ جمل میں قتل هوئے) Ú©ÛŒ قبر پر ایک گنبد بنایااور اس Ú©Û’ پاس ایک مسجد اورعبادتگاہ بھی بنائی گئی۔[108]



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 63 64 65 66 67 68 69 70 next