وھابیوں کے عقائد



”جس وقت میں طوس میں تھا کبھی کوئی ایسا واقعہ پیش نہ آیا کہ میں پریشان رھا، کیونکہ میں حضرت امام علی ابن موسی الرضا  + Ú©ÛŒ قبر Ú©ÛŒ زیارت کرتا تھا اور خدا سے رفع مشکل Ú©Û’ لئے دعا کرتا تھا تو میری دعا قبول هوجاتی تھی اور میری مشکل بھی دور هوجاتی تھی اور میں Ù†Û’ اس چیز کا بار بار تجربہ کیا ھے“۔

مذکورہ کتاب کے موٴلف نے قبروں کی زیارت کے سلسلہ میں اور بھی دوسری چیزیں نقل کی ھیں مثلاً ابوحنیفہ اور معروف کرخی کی قبروں کی زیارت کے بارے میں بیان کیا ھے۔[180]

اسی طرح عراق کے مشهور ومعروف موٴلف اور شاعر جمیل صدقی زھاوی بھی ھیں، چنانچہ موصوف کھتے ھیں :

” محمد بن عبد الوھاب اپنے ان عقائد کو پیش کرنے سے پھلے ان لوگوں کے بارے میں جنھوں نے نبوت کا دعویٰ کیا مطالعہ کا بے حد شوقین تھامثل مسیلمہ کذاب، سجاح، اسود عنسی اور طُلیحہ اسدی وغیرہ جیسا کہ بعض مشهور ومعروف موٴلفین نے اس بات کو لکھا ھے کہ، ظاھراً وہ پیغمبری کا دعویٰ کرنا چاھتا تھالیکن اتنی جراٴت نہ کرسکا۔ اس کا طریقہ یہ تھا کہ اپنے شھر کے لوگوں کو انصار او رجو دوسرے شھروں سے اس کے پاس آتے تھے ان کو مھاجر ین کھتا تھا، اور جو شخص اس کے عقائد کو قبول کرلیتا تھا اگر اس نے اپنا واجب حج کرلیا ھے تو اس کو دوبارہ حج کرنے کا حکم دیتا تھا، کیونکہ اس نے پھلا حج اس صورت میں انجام دیا تھا جب وہ مشرک تھا، اور اسی طرح جو شخص اس کے مذھب میں وارد هوتا تھا اس کے لئے یہ شھادت دےنا ضروری تھا کہ میں پھلے کافر تھا اور اس کے ماں باپ بھی کافر مرے اور گذشتہ علماء بھی کافر تھے، اور اگر وہ ان باتوں کی شھادت نھیں دیتا تھا تو اس کو قتل کردیا جاتا تھا۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی امت میں اپنے سے چھ سو سال پھلے والے تما م لوگوں کو کافر سمجھتا تھا، چاھے کوئی کتنا بھی بڑا متقی اور پرھیزگار ھی کیوں نہ هو، لیکن اگر اس کی پیروی نھیں کرتا تھا تو اس کو کافر اور مشرک شمار کیا جاتا تھا اور اس کی جان ومال سب حلال تھا، اور اگر کوئی اس کی پیروی کا دم بھرلیتا تھا تو چاھے کتنا بھی فاسق وفاجر هو اس کو مومن حساب کیا جاتا تھا۔

اسی طرح محمد بن عبد الوھاب کوشش کرتا تھا کہ کسی طرح پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عظمت کو کم رنگ کرے، اس کے بعض اصحاب نے یہ بات نقل کی ھے کہ وہ کھتا تھاکہ میرا یہ عصا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بھتر ھے کیونکہ پیغمبر اس وقت دنیا میں نھیں ھیں اور کسی کو کوئی فائدہ نھیں پهونچاسکتے (نعوذ باللہ) جبکہ یہ بات مذاھب اربعہ کے نزدیک کفر ھے۔

وہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر شب جمعہ اور گلدستہ اذان پر صلوات بھیجنے کو منع کرتا تھا اور اگر کوئی آنحضرت پر صلوات بھیجتا تھا تو اس کو سخت سے سخت سزا دی جاتی تھی، اور اس کی دلیل یہ تھی کہ یہ سب کچھ توحید کے منافی اور مخالف ھے۔

اسی نظریہ کے تحت اس نے ان کتابوں کو جلا ڈالا جن میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر صلوات کے جائز هونے پر دلیل دی گئی تھی، مثلاً ”دلائل الخیرات“ تالیف محمد بن سلیمان جزولی۔

اسی طرح فقہ وتفسیر اور احادیث کی ان کتابوں کو بھی جلا ڈالا جو اس کے عقیدہ کے خلاف تھیں، اور اپنے اصحاب کو اپنی سمجھ کے مطابق قرآن کی تفسیر کرنے کی اجازت دیدیتا تھا۔[181] (جبکہ تفسیر بالرائے سبھی فرقوں کے نزدیک ناقابل قبول ھے)

 Ø§Ø³ Ú©Û’ بعد زھاوی Ù†Û’ وھابیوں Ú©Û’ عقائد Ú©ÛŒ ردّ میں ان Ú©Û’ عقل وقیاس اور اجماع (جس Ú©Ùˆ ابوحنیفہ اور دوسرے لوگوں Ù†Û’ تسلیم کیا Ú¾Û’) سے انکار، کسی مجتہد Ú©ÛŒ تقلید کرنے والوں دوسرے مسلمانوں Ú©Ùˆ کافر کہنے اور پیغمبروں اور اولیاء اللہ سے توسل Ú©ÛŒ مخالفت اور ان Ú©Û’ دوسرے عقیدوں کا تفصیل Ú©Û’ ساتھ مدلل جواب دیا Ú¾Û’Û”



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 63 64 65 66 67 68 69 70 next