امام جعفر صادق (ع) اور مسئلہ خلافت



يہ سب كچھ تاريخ ميں موجود ھے كہ حالات كا رخ بدلنے سے لوگوں ميں علمي وفكري شعور پيدا ھوا۔ باصلاحيت افراد كو اپني صلاحيتيں آزمانے كا موقعہ ملا۔ يہ علمي فضا اور تعليمي ماحول امام محمد باقر عليہ السلام اور امام جعفر صادق عليہ السلام كے زمانوں سے قبل وجود تك نہ ركھتا تھا۔ يہ سب كچھ صرف حالات بدلنے سے ھوا كہ لوگ اچانك علم و عمل، فكر و نظر كي باتيں سننے لگے اور پھر كيا ھوا كہ چھار سو علم كي روشني پھيلتي چلي گئي۔ اب اگر بنو عباس پابندي عائد كرنا بھي چاھتے تو ان كے بس سے باھر تھا۔ كيونكہ عربوں كے علاوہ دوسري قوميں مشرف بہ اسلام ھوچكي تھيں۔ ان قوموں ميں ايرانى غير معمولي حد تك روشن فكر تھے۔ ان ميں جوش و جذبہ بھي تھا اور علمي صلاحيت بھي۔ مصري اور شامى لوگ بھي فكري اعتبار سے خاصے زرخيز تھے۔ ان علاقوں ميں دنيا كے مختلف افراد آكر آباد ھوئے۔ پھر دنيا كے لوگوں كي آمد و رفت نے اس خطے كو علم و ادب كا گھوارا بنا ديا۔ مختلف قوميں، مختلف نظريات اور پھر بحث مباحثوں سے فضا ميں حيرت انگيز تبديلي رونما ھوئي۔ يھاں پر اسلام اور مسلمانوں كو غلبہ حاصل ھو چكا تھا۔ لوگ چاھتے تھے كہ اسلام كے بارے ميں زيادہ سے زيادہ معلومات حاصل كريں۔ دوسري طرف عرب قرآن مجيد ميں كچھ زيادہ غور و خوض نہ كرتے تھے، ليكن دوسري قوموں ميں قرآني تعليمات حاصل كرنے كے بارے ميں بہت زيادہ جذبہ كار فرما تھا۔ اس دور ميں قرآن مجيد كے ترجمہ، تفسير اور مفاھيم پر خاصہ كام ھوا اور لوگ قرآن مجيد كو بنيادي حيثيت دے كر بات كرتے تھے۔

 

نظريات كي جنگ

 

اچانك پھر كيا ھوا كہ عقائد و نظريات كا بازار گرم ھوگيا، سب سے پھلے تو تفسير قرآن، قرات اور آيات قراني پر بحث ھونے لگي۔ ايك ايسي جماعت پيدا ھوئي كہ جو لوگوں كو علم قرات، اور الفاظ، حروف كي صحيح ادائيگي كے بارے ميں تعليم دينے لگى، اس وقت قرآن مجيد كي اشاعت و طباعت ايسي نہ تھي كہ جيسا كہ ھمارے دور ميں ھے۔ ان ميں سے ايك شخص كھتا تھا ميں قرات كرتا ھوں اور يہ روايت فلاں بن فلاں صحابي سے نقل كرتا ھوں اور ان كي اكثريت حضرت علي عليہ السلام تك پھنچتي تھي۔ دوسرے افراد مختلف شخصيات سے روايت كرتے اسي طرح بحثوں اور مذاكروں كا سلسلہ عروج تك جا پھنچا۔ يہ لوگ مساجد ميں جاكر لوگوں كو قرآن مجيد كي تعليم ديتے۔ عربوں كي نسبت غير عرب زيادہ شوق و ذوق سے شركت كرتے تھے، اس كي وجہ يہ ھے كہ عجمي لوگ قرآن مجيد كو پڑھنے اور سمجھنے ميں زيادہ دلچسپي ليتے تھے۔ ايك قرات كے استاد مسجد ميں آكر لوگوں كو درس قرآن ديتے اور ان كے ارد گرد لوگوں كا ايك ھجوم جمع ھوجاتا۔ اتفاق سے قرات ميں بھي اختلاف پيدا ھوگيا پھر قرآن مجيد كے معاني پر اختلاف پيدا ھوگيا، كوئي كچھ معني كرتا اور كوئي كچھ ۔ اسي طرح احاديث كے بارے ميں بھي مختلف آراء تھيں۔ حافظ احاديث كو بہت زيادہ احترام كي نظر سے ديكھا جاتا تھا۔ وہ مساجد و محافل ميں بڑے فخر و انبساط سے احاديث نقل كرتا اور لوگوں كو نئے اسلوب كے ساتھ حديثيں بيان كرتا۔ نقل احاديث كے مراحل بھي بيان كرتا كہ يہ حديث ميں نے فلاں سے سني اور اس نے فلاں سے اور فلاں نے پيغمبر اكرم (ص) سے نقل كي ھے پھر اس كا معني و مفھوم يہ ھے۔

 

ان ميں قابل احترام طبقہ فقھاء كا تھا لوگ ان سے فقھي مسائل پوچھتے تھے جيسا كہ اب بھي لوگ علماء سے شرعي و فقھي مسائل دريافت كرتے ھيں۔فقھاء كي ايك كثير تعداد مختلف علاقوں ميں پھيل گئي۔ لوگوں كو آسان طريقے سے بتايا جاتا تھا كہ يہ چيز حلال ھے اور يہ حرام يہ چيز پاك ھے اور يہ نجس يہ كاروبار صحيح ھے اور يہ ناجائز وغيرہ وغيرہ، مدينہ بہت بڑا علمي مركز تھا اور دوسرا بڑا مركز كوفہ ميں قائم تھا۔ جناب ابو حنيفہ كوفہ ميں تھے بصرہ بھي علمي لحاظ سے كافي اچھي شھرت كا حامل تھا۔ اس كے بعد امام جعفر صادق عليہ السلام كے دور امامت ميں اندلس فتح ھوا تو يھاں پر بھي علمي مركز قائم ھوگيا دوسرے لفظوں ميں يوں سمجھئے كہ ھر اسلامي شھر علم و عمل كا مركز كھلاتا تھا كھا جاتا تھا كہ فلاں فقيھہ كا يہ نظريہ ھے اور فلاں فقيھہ يہ فرماتے ھيں مختلف مكاتب فكر كي موجودگي ميں اختلاف رائے كا پيدا ھونا ضروري امر تھا۔ چنانچہ فقھي ميدان ميں بھي عقائد كي جنگ چھڑ گئي اور يہ روز بروز زور پكڑتي گئي۔ ان تمام اختلافات سے بڑھ كر اختلاف "علم كلام" كا تھا۔

 

پہلي صدي ھي ميں متكلم حضرات كي آمد شروع ھوگئي جيسا كہ ھم امام جعفر صادق عليہ السلام كے دور ميں ديكھتے ھيں كہ "متكلمين" آپس ميں بحث مباحثہ كرتے اور امام جعفر صادق عليہ السلام كے بعض شاگرد علم كلام ميں خاص مھارت ركھتے تھے اور اعتراض كرنے والوں كو بڑے شائستہ طريقے سے جواب ديتے تھے۔ يہ لوگ خدا، صفات خدا اور قرآن مجيد كي ان آيات سے متعلق بحث و تمحيص كرتے جو خدا كے بارے ميں ھوا كرتي تھيں۔ كہا جاتا تھا كہ خدا كي فلاں صفت عين ذات ھے يا نھيں، كيا وہ حادث ھے يا قديم؟ نبوت اور وحي كے بارے ميں بحث كي جاتي تھى، شيطان كو بھي بحث ميں لايا جاتا ھے كہ يہ كون ھے؟ اور كھاں سے آيا ھے اس كا كام كيا ھے اور اس كے شر سے كيسے بچا جاسكتا ھے؟ پھر ايمان اور عمل پر روشني ڈالي جاتي قضا وقدر، جبر و اختيار پر گفتگو ھوتي۔ غرض كہ علم كلام كے ماھرين كے مابين نوك جھونك ھوتي رھتي اور مباحثوں كا يہ طويل سلسلہ بڑھتا چلا گيا اور آج تك موجود ھے اور قيامت تك رھے گا ليكن بحث كے وقت انسان انتھا پسندانہ رويے كو ترك كركے صلح و آشتي اور پرامن رويے كو اپنے سامنے ركھے۔ ان بحثوں كا نتيجہ تھا كہ ايك خطرناك ترين گروہ پيدا ھو گيا۔ ان كو آپ زنديق، لا مذھب كھہ سكتے ھيں۔ يہ لوگ خدا اور اديان كے قائل نہ تھے۔ ان كو ھر لحاظ سے مكمل آزادي تھى، يہ مكہ و مدينہ، مسجد الحرام يھاں تك مسجد الحرام اور مسجد النبي ميں بيٹھ كر اپنے عقائد كي ترويج كرتے تھے۔

 



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 next