امام جعفر صادق (ع) اور مسئلہ خلافت



 

"انما رثيت علمہ"

 

كہ ميں نے اس كے علم كا مرثيہ كھا ھے۔"

 

وہ ايك بہت بڑا عالم تھا، دانشمند تھا ميں نے اس پر اس ليے مرثيہ كھا كہ اھل علم ھم سے جدا ھو گيا ھے، اگر اس زمانے ميں ايسا كيا جائے تو لوگ اس عالم كو شھر بدر كرديں گے۔ جرجي زيدان كھتا ھے كہ ايك جليل القدر عالم دين نے حسن اخلاق اور رواداري كا مظاھرہ كر كے اپني خانداني عظمت اور اسلام كي پاسداري كا عملي ثبوت ديا ھے۔ سيد رضي حضرت علي عليہ السلام كے ايك لحاظ سے شاگر تھے۔ كہ انھوں نے مولا امير المومنين عليہ السلام كے بكھرے ھوئے كلام كو جمع كر كے نھج البلاغہ كے نام سے ايك ايسي كتاب تاليف كي كہ جسے قرآن مجيد كے بعد بہت زيادہ احترام كي نگاہ سے ديكھا جاتا ھے۔ سيد رضي اپنے جد امجد پيغمبر اسلام (ص) اور حضرت علي عليہ السلام كي تعليمات سے بھت زيادہ قريب تھے۔ اسي ليے تو كھتے ھيں كہ علم و حكمت جھاں كھيں بھي ملے اسے لے لو۔ يہ تھے وہ محركات كہ جن كي وجہ سے لوگوں ميں فكري و نظرياتي اور شعوري طور پر پختگي پيدا ھوئي اور تعليم و تربيت، علم و عمل كے حوالے سے جتني بھي ترقي ھے يہ سب كچھ حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام كي مھربانيوں كا نتيجہ ھے۔ پس ھماري گفتگو كا نتيجہ يہ ھوا كہ اگر چہ امام جعفر صادق عليہ السلام كو ظاھري حكومت نھيں ملي اگر مل جاتي تو آپ اور بھي بھتر كارنامے انجام ديتے ليكن آپ كو جس طرح اور جيسا بھي كام كرنے كا موقعہ ملا آپ نے كوئي لمحہ ضائع كئے بغير بے شمار قابل ستائش كام كيے۔ مجموعي طور پر ھم كھہ سكتے ھيں كہ مسلمانوں كے جتنے بھي علمي و ديني كارنامے تاريخ ميں موجود ھيں وہ سب صادق آل محمد عليہ السلام كے مرہون منت ھيں۔

 

شيعہ تعليمي مراكز تو روز روشن كي طرح واضح ھيں۔ اھل سنت بھائيوں كے تعليمي و ديني مراكز ميں امام عليہ السلام كے پاك و پاكيزہ علوم كي روشني ضرور پھنچي ھے۔ اھل سنت حضرات كي سب سے بڑي يونيورسٹي الازھر كو صديوں قبل فاطمي شيعوں نے تشكيل ديا تھا اور جامعہ ازھر كے بعد پھر اھل تسنن كے مدرسے اور ديني ادارے بنتے چلے گئے۔ ان لوگوں كے اس اعتراض (كہ امام عليہ السلام ميدان جنگ ميں جھاد كرتے تو بھتر تھا؟) كا جواب ھم نے دے ديا ھے ان كو يہ بات بھي بغور سنني چاھيے كہ اسلام جنگ كے ساتھ كبھي نھيں پھيلا بلكہ اسلام تو امن و سلامتي كا پيامبر ھے۔ مسلمان تو صرف دفاع كرنے كا مجاز ھے، آپ اسے جھاد كے نام سے بھي تعبير كر سكتے ھيں۔ امام عليہ السلام كي حلم و بردباري اور حسن تدبر نے نہ فقط ماحول كو خوشگوار بنايا بلكہ لوگوں كو شعور بخشا، علم جيسي روشني سے مالا مال كر ديا، اسلام اور مسلمانوں كي عظمت و رفعت ميں اضافہ ھوا۔

 

باقي رھا يہ سوال كہ ائمہ طاھرين (ع) عنان حكومت ھاتھ ميں لے كر اسلام اور مسلمانوں كي بخوبي خدمت كر سكتے تھے انھوں نے اس موقعہ سے فائدہ نھيں اٹھايا پر امن رھنے كے باوجود بھي ان كو جام شھادت نوش كرنا پڑا؟ تو اس كا جواب يہ ھے كہ حالات اس قدر بھي سازگار و خوشگوار نہ تھے كہ آئمہ اطھار (ع) كو حكومت و خلافت مل جاتى؟ امام عليہ السلام نے حكمرانوں سے ٹكرانے كي بجائے ايك اھم تعميري كام كي طرف توجہ دي۔ علماء فضلاء، فقھاء اور دانشور تيار كر كے آپ نے قيامت تك كے انسانوں پر احسان عظيم كر ديا۔ وقت وقت كي بات ھے آئمہ طاھرين عليھم السلام نے ھر حال، ھر موقعہ پر اسلام اور مظلوم طبقہ كي بھر پور طريقے سے ترجماني كي۔ حضرت امام رضا عليہ السلام كو مامون كي مجلس ميں جانے كا موقعہ ملا آپ نے سركاري محفلوں اور حكومتي ميٹنگوں ميں حق كي كھل كر ترجماني كي اور جيسے بھي بن پڑا غريبوں اور بے سھارا لوگوں كي مددكي۔ امام رضا عليہ السلام دو سال تك مامون كے قريب رھے۔ اس دور ميں آپ سے كچھ نہ كچھ احاديث نقل كي گئيں اس كے بعد آپ كي كوئي حديث نظر نھيں آتي۔ دوسرے لفظوں ميں مامون كے دور ميں آپ كو دين اسلام كي ترويج كيلئے كام كرنے كا موقعہ ملا اس كي وجہ مامون كي قربت ھے اس كے بعد پابنديوں كا دور شروع ھو گيا۔ آپ جو كرنا چاھتے تھے وہ بندشوں اور ركاوٹوں كي نظر ھو گيا۔ پھر آپ كو جام شھادت نوش كرنا پڑا۔ جو آپ كے باپ دادا كے ورثہ ميں شامل تھا۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 next