امام جعفر صادق (ع) اور مسئلہ خلافت



ابو سلمہ كا خط امام جعفر صادق (ع) اور عبد اللہ محض كے نام

 

مشھور مورخ مسعودي نے مروج الذھب ميں لكھا ھے كہ ابو سلمہ اپني زندگي كے آخري لمحات ميں اس فكر ميں مستغرق رھتا تھا كہ خلافت آل عباس سے لے كر آل ابي طالب (ع) كے حوالے كرے۔ اگر چہ وہ شروع ميں آل عباس كيلئے كام كرتا رھا۔۱۳۲ھ ميں جب بني عباس نے رسمي طور پر اپني حكومت كي داغ بيل ڈالي اس وقت ابراھيم امام شام كے علاقہ ميں كام كرتا تھا ليكن وہ منظر عام پر نھيں آيا تھا۔ وہ بھائيوں ميں سے بڑا تھا۔ اس لئے اس كي خواھش تھي كہ وہ خليفہ وقت بنے ليكن وہ بني اميہ كے آخري دور ميں خليفہ مروان بن محمد كے ہتھے چڑھ گيا اور اس كو يہ فكر دامن گير ھوئي كہ اگر اس كے خفيہ ٹھكانے كا كسي كو پتہ چل گيا تو وہ گرفتار كر ليا جائے گا۔ چنانچہ اس نے ايك وصيت نامہ لكھ كر مقامي كسان كے ذريعے اپنے بھائيوں كو بھجوايا۔ وہ كوفہ كے نواحي قصبے حميمہ ميں مقيم تھے، اس نے اس وصيت نامے ميں اپنے سياسي مستقبل كے بارے ميں اپني حاليہ پاليسي كے بارے ميں اعلان كيا اور اپنا جانشين مقرر كيا اور اس ميں اس نے يہ لكھا كہ اگر ميں آپ لوگوں سے جدا ھوگيا تو ميرا جانشين سفاح ھوگا (سفاح منصور سے چھوٹا تھا) اس نے اپنے بھائيوں كو حكم ديا كہ وہ يھاں سے كوفہ چلے جائيں اور كسي خفيہ مكان ميں جاكر پناہ ليں اور انقلاب كا وقت قريب ھے۔ اس كو قتل كرديا گيا اور اس كا خط اس كے بھائيوں كے پاس پھنچايا گيا۔ وہ وھاں سے چھپتے چھپاتے كوفہ چلے آئے اور ايك لمبے عرصے تك وھيں پہ مقيم رھے۔ ابو سلمہ بھي كوفہ ميں چھپا ھوا تھا اور تحريك كي قيات كررھا تھا دو تين مھينوں كے اندر اندر يہ لوگ رسمي طور پر ظاھر ھوئے اور جنگ كر كے بہت بڑي فتح حاصل كي۔

 

مورخين نے لكھا ھے كہ اس انقلاب كے بعد ابراھيم امام كو قتل كرديا گيا۔ حكومت سفاح كے ھاتھ ميں آگئي۔ اس واقعہ كے بعد ابو سلمہ كو پريشاني لاحق ھوئي اور وہ سوچنے لگا كہ خلافت كيوں نہ آل عباس سے لے كر آل ابو طالب كے حوالے كي جائے۔ اس نے دو عليحدہ عليحدہ خطوط لكھے ايك خط امام جعفر صادق عليہ السلام كي خدمت ميں روانہ كيا اور دوسرا خط عبداللہ بن حسن بن حسن بن علي بن ابي طالب (ع) كے نام ارسال كيا۔ (حضرت امام حسن (ع) كے ايك بيٹے كا نام حسن تھا جسے حسن مثنيٰٰ سے ياد كيا جاتا ھے يعني دوسرے حسن، حسن مثني كربلا ميں شريك جھاد ھوئے ليكن زخمي ھوئے اور درجئہ شھادت پر فائز نہ ھو سكے۔

 

اس جنگ ميں ان كي ماں كي طرف سے ايك رشتہ داران كے پاس آيا اور عبيد اللہ ابن زياد سے سفارش كي كہ ان كو كچھ نہ كہا جائے۔ حسن مثنيٰ نے اپنا علاج معالجہ كرايا اور صحت ياب ھوگئے۔ ان كے دو صاجزادے تھے ايك كانام عبداللہ تھا۔ عبداللہ ماں كے لحاظ سے امام حسين عليہ السلام كے نواسے تھے اور باپ كي طرف سے امام حسن عليہ السلام كے پوتے تھے۔ آپ دو طريقوں سے فخر كرتے ھوئے كھا كرتے تھے كہ ميں دو حوالوں سے پيغمبر اسلام (ص) كا بيٹا ھوں۔ اسي وجہ سے ان كو عبداللہ محض كھا جاتا تھا۔ يعني خالصتاً اولاد پيغمبر، عبداللہ حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام كے دور امامت ميں اولاد امام حسن عليہ السلام كے سربراہ تھے، جيسا كہ امام جعفر صادق عليہ السلام اولاد امام حسين عليہ السلام كے سربراہ تھے۔)

 

ابو سلمہ نے ايك شخص كے ذريعہ سے يہ دو خطوط روانہ كيے، اور اس كو تاكيد كي كہ اس كي خبر كسي كو بھي نہ ھو۔ خط كا خلاصہ يہ تھا كہ خلافت ميرے ھاتھ ميں ھے۔ خراسان بھي ميرے پاس ھے اور كوفہ پر بھي ميرا كنٹرول ھے، اور اب تك ميري ھي وجہ سے خلافت بني عباس كو ملي ھے۔ اگر آپ حضرات راضي ھوں تو ميں حالات كو پلٹ ديتا ھوں يعني وہ خلافت آپ كو دے ديتا ھوں۔

 



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 next