امام جعفر صادق (ع) اور مسئلہ خلافت



اس سے پتہ چلتا ھے كہ امام عليہ السلام نے اپني حسن سياست اور بھترين حكمت عملي كي بدولت اپنے مكار، عيار اور با اختيار دشمن كو بے بس كيے ركھا۔ ھم سب پر لازم ھے كہ اپنے دشمنوں، مخالفوں كے مقابلے ميں ھمہ وقت تيار ھيں۔ ھوشياري و بيداري كے ساتھ ساتھ ھمارا قومي و ملي اتحاد بھي وقت كي اھم ضرورت ھے۔ ھمارا بزدل دشمن گھات لگائے بيٹھا ھے۔ وہ كسي وقت بھي ھميں نقصان پھنچا سكتا ھے۔ جوں جوں وقت گزرتا جارھا ھے۔ طاقت و غلبہ كے تصور كي اھميت بڑھتي جارھي ھے۔ خوش نصيب ھيں وہ لوگ جو وقت كي نبض تھام كر سوچ سمجھ كر آگے بڑھتے ھيں اور پھر بڑھتے چلے جاتے ھيں۔

 

علمي پيشرفت كے اصل محركات

 

جيسا كہ ھم نے پہلے بھي عرض كيا ھے كہ امام جعفر صادق عليہ السلام كے دور امامت ميں غير معمولي طور پر ترقي ھوئي ھے۔ معاشرہ ميں فكر و شعور كو جگہ ملي گويا سوئي ھوئي انسانيت ايك بار پھر پوري توانائي كے ساتھ جاگ اٹھى، بحثوں، مذاكروں اور مناظروں كا سلسلہ شروع ھوگيا تھا۔ انھي مذاكرات سے اسلام كو بہت زيادہ فائدہ ھوا، علمي ترقي اور پيشرفت كے تين بڑے محركات ھميں اپني طرف متوجہ كرنے ھيں۔ پھلا سبب يہ تھا كہ اس وقت پورے كا پورا معاشرہ مذھبي تھا۔ لوگ مذھبي و ديني نظريات كے تحت زندگي گزار رھے تھے۔

 

پھر قرآن و حديث ميں لوگوں كو علم حاصل كرنے كي ترغيب دي گئي تھي۔ لوگوں سے كھا گيا تھا كہ جو جانتے ھيں وہ نہ جاننے والوں كو تعليم ديں، حسن تربيت كي طرف بھي اسلام نے خصوصي توجہ دي ھے۔ يہ محرك تھا كہ جس كي وجہ سے علم و دانش كي اس عالمگير تحريك كو بہت زيادہ ترقي ھوئي۔ ديكھتے ھي ديكھتے قافلے كے قافلے اس كا رواں علم ميں شامل ھوگئے۔ دوسرا عامل يہ تھا كہ مختلف قوموں، قبيلوں، علاقوں اور ذاتوں سے تعلق ركھنے والے لوگ مشرف بہ اسلام ھو چكے تھے۔ ان افراد كو تحصيل علم سے خاص لگاؤ تھا۔ تيسرا محرك يہ تھا كہ اسلام كو ھي وطن قرار ديا گيا يعني جھاں اسلام ھے اس شھر، علاقے اور جگہ كو وطن سمجھا جائے۔ اس كا سب سے بڑا فائدہ يہ ھوا كہ اس وقت جتنے بھي ذات پات اور نسل پرستي تصورات تھے وہ اسي وقت دم توڑ گئے۔ اخوت وبرادري كا تصور رواج پكڑنے لگا۔ ايك وقت ايسا بھي آيا كہ اگر استاد مصري ھے تو شاگرد خراساني يا شاگرد مصري ھے تو استاد خراسانى، ايك بہت بڑا ديني مدرسہ تشكيل ديا گيا۔ آپ كے حلقہ درس ميں نافع، عكرمہ جيسے غلام بھي درس ميں شركت كرتے ھيں، پھر عراقى، شامى، حجازى، ايرانى، اور ھندي طلبہ كي رفت و آمد شروع ھوگئي۔ ديني ادارے كي تشكيل سے لوگوں كا آپس ميں رابط بڑھا اور اس سے ايك ھمہ گير انقلاب كا راستہ ھموار ھوا۔ اس زمانے ميں مسلم، غير مسلم ايك دوسرے كے ساتھ رھتے۔ رواداري كا يہ عالم تھا كہ كوئي بھي كسي كے خلاف كوئي بات نھيں كرتا تھا۔ عيسائىوں كے بڑے بڑے پادري موجود تھے۔ وہ مسلمانوں اور ان كے علماء كا دلي طور پر احترام كرتے بلكہ غير مسلم مسلمانوں كے علم و تجربہ سے استفادہ كرتے۔ پھر كيا ھوا؟ كہ دوسري صدي ميں مسلمانوں كي اقليت اكثريت ميں بدل گئي ۔ اس لحاظ سے مسلمانوں كا عيسائىوں كے ساتھ روداري كا مظاھرہ كرنا كافي حد تك مفيد ثابت ھوا۔ حديث ميں بھي ھے كہ اگر آپ كو كسي علم يا فن كي ضرورت پڑے اور مسلمانوں كے پاس نہ ھو تو وہ غير مسلم سے بھي حاصل كر سكتے ھيں۔ نھج البلاغہ ميں اس چيز كي تاكيد كي گئي ھے اور علامہ مجلسي (رح) نے بحار ميں تحرير فرمايا كہ پيغمبر اكرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كا ارشاد گرامي ھے كہ:

 

"خذوا الحكمۃ ولو من مشرك"



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 next