انتظار اور منتظر کے خصوصیات (2)



یھی وہ قرابت ومحبت ھے جس نے پوری امت مسلمہ کو ایک دھاگے میں پرو کر ایک دوسرے سے اس طرح جوڑدیا ھے کہ وہ ایک منظم ہار کی طرح دکھائی دیتے ھیں اس کی طرف قرآن مجید کی اس آیت میں ارشاد موجود ھے:< وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُہُمْ اٴَوْلِیَاءُ بَعْضٍٍ>[48]

”مومن مرد اور مومن عورتیں آپس میں ایک دوسرے کے دوست ھیں۔“

اس دوستی کے نتیجہ میں ان کے درمیان آپسی محبت ،ایک دوسرے کی امداد ، کفالت ، تعاون،صلح وصفائی اور وعظ ونصیحت کی فضاھموارھوتی ھے۔

اور جس قوم کے درمیان اتنے مضبوط اور مستحکم تعلقات استوار ھوئے ھوں وہ قوم جنگ کے میدان میں بالکل ٹھوس اور مضبوط ھوتی ھے اور اسی مقصد کے لئے خداوندعالم ان رشتوں کو اور مضبوط کر دیتا ھے یہاں تک کہ پوری امت کا اتحاد ایک خاندان کے اتحاد سے زیادہ قوی ھو جاتا ھے۔

اورپھر جب اس امت کا مشن میدان میں رہ کر دشمنوں سے مقابلہ اورمعرکہ آرائی ھے تو اس کے لئے اندرسے بے حد مضبوط اور مستحکم اور ٹھوس ھونا بھی ضروری ھے ۔

اسی وقت وہ اپنے اوپر ھونے والے کمرشکن حملوں کا منہ توڑجواب دے سکتی ھے اور یہ کام آپسی ولایت ،اتحاد ،اخود ومحبت سے ھی ممکن ھے کہ ان سے تمام مسلمانوں کے ہاتھ مضبوط ھوتے ھیں اورانھیں ایک دوسرے کی پشت پناھی حاصل رہتی ھے اس کے بغیر یہ قوم اس طولانی معرکہ آرائی میں کفرونفاق کے سامنے بالکل نھیں ٹھہر سکتی ھے۔ متحد قوم اللہ تعالیٰ کی رسی سے وابستہ ھوتی ھے اور گویاکہ کفرکے مقابل یہ ایک آہنی چٹان ،ایک وجود،ایک خاندان اور ایک ھی جماعت ھے :< وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِیعًا وَلاَتَفَرَّقُوا> [49]”اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رھو اور آپس میں تفرقہ نہ پیدا کرو۔“

اس آیہٴ کریمہ میں خدا وندعالم نے پھلے تو ان لوگوں کو میدان جنگ میں خداکی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رہنے کا حکم دیا ھے اور دوسرے یہ کہ حبل اللہ کو مضبوطی سے تھامنے کا حکم سب کے لئے ھے نہ کہ چند افراد کے لئے ۔

کیونکہ جنگ کا مطلب ھی یہ ھوتاھے کہ اس میں طرفین میں سے ہر ایک اپنی پوری طاقت وقوت صرف کردیتاھے اور اس امت کی قوت وطاقت کا راز دوچیزیں ھیں: ”اللہ کی رسی سے مضبوط وابستگی “اور” اتحاد واجتماع“

 

۳۔تاریخی میراث



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 next