انتظار اور منتظر کے خصوصیات (2)



< قَالَ مُوسَی لِقَوْمِہِ اسْتَعِینُوا بِاللهِ وَاصْبِرُوا إِنَّ الْاٴَرْضَ لِلَّہِ یُورِثُہَا مَنْ یَشَاءُ مِنْ عِبَادِہِ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِینَ (۱۲۸) قَالُوا اٴُوذِینَا مِنْ قَبْلِ اٴَنْ تَاٴْتِیَنَا وَمِنْ بَعْدِ مَا جِئْتَنَا قَالَ عَسَی رَبُّکُمْ اٴَنْ یُہْلِکَ عَدُوَّکُمْ وَیَسْتَخْلِفَکُمْ فِی الْاٴَرْضِ فَیَنظُرَ کَیْفَ تَعْمَلُونَ >[54]

”موسیٰ نے اپنی قوم سے کہااللہ سے مددمانگو اور صبر کرو،زمین اللہ کی ھے وہ اپنے بندوں میں جس کوچاہتاھے وارث بناتاھے اور انجام کار بہرحال صاحبان تقویٰ کے لئے ھے ،قوم نے کہا ھم تمہارے آنے سے پھلے بھی ستائے گئے اور تمہارے آنے کے بعد بھی ستائے گئے موسیٰ نے جواب دیا عنقریب تمہارا پر وردگار تمہارے دشمن کو ھلاک کر دے گا اورتمھیں زمین میں اس کا جانشین بنادے گا اور پھر دیکھے گا کہ تمہارا طرزعمل کیسا ھوتاھے۔“

ان آیتوں سے معلوم ھوتاھے کہ جناب موسیٰ   - Ú©ÛŒ پوری کوشش یہ تھی کہ میدان جنگ میں دشمن سے روبروھونے Ú©Û’ بعد بنی اسرائیل Ú©Ùˆ خدا Ú©ÛŒ طرف سے پرامیداور وعدہٴ الٰھی پر اعتماد اور مشکلات سے نجات کا آرزو مند بنائے رکھیں اور ان Ú©Û’ دلوں میں اس عظیم خدائی فرمان Ú©Ùˆ راسخ کردیں :

< قَالَ مُوسَی لِقَوْمِہِ اسْتَعِینُوا بِاللهِ وَاصْبِرُوا إِنَّ الْاٴَرْضَ لِلَّہِ یُورِثُہَا مَنْ یَشَاءُ مِنْ عِبَادِہ>

عجیب بات یہ Ú¾Û’ کہ جناب موسیٰ   - Ù†Û’ وعدہ الٰھی Ú©ÛŒ بنیاد پر ”صبر “ اور  ”انتطار “کو ایک دوسرے سے مربوط قرار دیا Ú¾Û’ چنانچہ آپ (ع) فرماتے ھیں:

< وَاصْبِرُوا إِنَّ الْاٴَرْضَ لِلَّہِ یُورِثُہَا مَنْ یَشَاءُ مِنْ عِبَادِہِ >”صبر سے کام لو،زمین اللہ Ú©ÛŒ Ú¾Û’ وہ اپنے بندوں میں جسے چاہتاھے وارث بناتاھے۔“ جبکہ بنی اسرائیل Ú©ÛŒ یہ کوشش تھی کہ وہ اپنے نبی Ú©Û’ دھیان Ú©Ùˆ مستقبل Ú©Û’ انتظار Ú©Û’ بجائے یہ کہہ کر اپنی موجودہ تلخیوں Ú©ÛŒ طرف متوجہ کریں:”قَالُوا اٴُوذِینَا مِنْ قَبْلِ اٴَنْ تَاٴْتِیَنَا وَمِنْ بَعْدِ مَا جِئْتَنَا“”ھم تمہارے آنے سے Ù¾Ú¾Ù„Û’ بھی ستائے گئے ھیں اور تمہارے آنے Ú©Û’ بعد بھی ستائے گئے ۔“چنانچہ جناب موسیٰ  (ع) Ù†Û’ ان Ú©ÛŒ طرف دوبارہ رخ کر Ú©Û’ انھیں اسی انداز سے بآواز بلند یہ اطمینان دلایاکہ وعدہٴ الٰھی کا انتظار کریں ،اور حالات سازگار ھونے تک وہ صورتحال پر صبر کرتے رھیں:< قَالَ عَسَی رَبُّکُمْ اٴَنْ یُہْلِکَ عَدُوَّکُمْ وَیَسْتَخْلِفَکُمْ فِی الْاٴَرْضِ فَیَنظُرَ کَیْفَ تَعْمَلُونَ >”موسیٰ Ù†Û’ جواب دیا:” عنقریب تمہارا پر وردگار تمہارے دشمن Ú©Ùˆ ھلاک کر دے گا اورتمھیں زمین میں اس کا جانشین بنادے گا اور پھر دیکھے گا کہ تمہارا طرزعمل کیسا ھوتاھے۔“

اسی طرح خدا وندعالم بھی یھی چاہتاھے کہ یہ امت ”وارثت“اور”انتظار“کی تہذیب سے آراستہ ھوجائے یعنی ابنیاء وصالحین Ú©ÛŒ وراثت اور حالات Ú©ÛŒ سازگار ÛŒ اور  صالحین Ú©Û’ متعلق وعدہٴ الٰھی کا انتظار۔ توحیدی تحریک میں ایک جانب ” وراثت“ اور دوسری جانب”انتظار“ساتھ ساتھ چلتے ھیں بلکہ دوسرے الفاظ میں یہ کہاجاسکتاھے کہ”وراثت“و”انتظار“توحید Ú©Û’ دشوار گذار اور طولانی سفر میں دواھم وسیلہ Ú©ÛŒ حیثیت رکھتے ھیں۔لہٰذا ھمارے لئے ضروری Ú¾Û’ کہ Ú¾Ù… قرآن مجید Ú©ÛŒ ان دونوں تہذیبوں ”وراثت“اور ”انتظار“سے اپنے دامن تہذیب وتمدن Ú©Ùˆ آراستہ وپیراستہ کریں۔

 

 

 



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 next