انتظار اور منتظر کے خصوصیات (2)



انتظار انسان کومتحرک اورفعال بنانے کا چوتھا سبب ھے کیونکہ انتظار سے انسان کے دل میںامید و آرزو پیدا ھوتی ھے اور آرزو پیدا ھونے کی وجہ سے اسے استقامت اور متحرک رہنے کی قدرت وطاقت نصیب ھوتی ھے جس کی مثال ڈوبتے ھوئے انسان کے ذیل میں پھلے ھی گذرچکی ھے۔

”زمین صالحین کی میراث ھے “یا”امامت مستضعف مومنین کاحق ھے“ اور ”عاقبت متقین کے لئے ھے“ ان تمام باتوں پر ایمان کی وجہ سے نیک کرداراورصالح ومتقی افراد کو

 Ø§ÛŒØ³ÛŒ قوت وطاقت اورایسی خوداعتمادی حاصل ھوتی Ú¾Û’ کہ ہر طرح Ú©Û’ معرکہ میں ان  Ú©Û’ قدم جمے رہتے ھیں اور سخت سے سخت اور دشوار ترین حالات میں وہ ظالموں اور جابروں Ú©Ùˆ چیلنج کر سکتے ھیں اور یھی ایمان ان Ú©Ùˆ خطرناک مواقع پر پسپائی ،ہزیمت اوراحساس کمتر ÛŒ کا شکار نھیں ھونے دیتا۔

اسی لئے قرآن Ù†Û’ اس حقیقت پر زور دیا Ú¾Û’ :< وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِینَ >[51] 

قرآن روئے زمین پر صالحین کی وراثت کے بارے میں اسی طرح پر زورانداز سے بیان کرتا ھے جس طرح اس سے پھلے اللہ تعالیٰ نے زبورمیں اس کا تذکرہ فرمایاھے:< وَلَقَدْ کَتَبْنَا فِی الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّکْرِ اٴَنَّ الْاٴَرْضَ یَرِثُہَا عِبَادِی الصَّالِحُونَ>[52] ”اور ھم نے ذکرکے بعد زبور میں لکھ دیا ھے کہ ھماری زمین کے وارث ھمارے نیک بندے ھی ھوں گے۔“

اس تاریخی حقیقت Ú©ÛŒ اھمیت Ú©ÛŒ بنا پر مومنین Ú©Û’ اذہان میں اسے راسخ کرنے Ú©ÛŒ ضرورت اور اسلامی عقلاء Ú©ÛŒ جانب سے بنیادی حقیقت حاصل ھونے Ú©ÛŒ وجہ سے      خدا وندعالم Ù†Û’ اسے ذکر Ú©Û’ ساتھ ساتھ زبور میں بھی تحریری Ø´Ú©Ù„ میں محفوظ کر دیا Ú¾Û’Û” دنیا Ú©Û’ کمزور اوردبے Ú©Ú†Ù„Û’ لوگ خداکے احکام پر عمل پیراھوں Ú¯Û’ اور اس Ú©ÛŒ دعوت Ú©Û’ مطابق چلیں Ú¯Û’ اورایمان وعمل صالح Ú©Û’ جوہر سے آراستہ Ú¾ÙˆÚº Ú¯Û’ تو اس وقت اس خدائی فیصلہ کا آشکار ھوناحتمی ویقینی Ú¾Û’Û”

خدا وندعالم کاارشاد ھے:< وَنُرِیدُ اٴَنْ نَمُنَّ عَلَی الَّذِینَ اسْتُضْعِفُوا فِی

 Ø§Ù„ْاٴَرْضِ وَنَجْعَلَہُمْ اٴَئِمَّةً وَنَجْعَلَہُمْ الْوَارِثِینَ>[53] ”اور Ú¾Ù… یہ چاہتے ھیں کہ جن لوگوں Ú©Ùˆ زمین میں کمزور بنا دیا گیا Ú¾Û’ ان پر احسان کر یں اور انھیں لوگوں کا پیشوا بنائیں اور زمین کا وارث قرار دیں اور انھیں کوروئے زمین کا اقتدار دیں ۔“

یہ دونوں آیتیں اگرچہ جناب موسیٰ   -،فرعون اور ہامان Ú©Û’ قصہ Ú©Û’ ذیل میں ذکرھوئی ھیں لیکن کمزوروں Ú©ÛŒ امامت ورہبری Ú©Û’ بارے میں ارادہٴ الٰھیہ بالکل مطلق Ú¾Û’ اور اس Ú©Û’ لئے کسی قسم Ú©ÛŒ کوئی قید نھیں Ú¾Û’ ۔ہاں!البتہ اگرکوئی قید Ú¾Û’ وہ تو صرف ÙˆÚ¾ÛŒ Ú¾Û’ جس Ú©ÛŒ طرف خدا وندعالم Ù†Û’ مومنین کرام Ú©Ùˆ دعوت دی Ú¾Û’ یعنی” ایمان “،”عمل صالح“ یھی وجہ Ú¾Û’ کہ خدا وندعالم Ù†Û’ کمزورمومنین سے جو یہ وعدہ کیا Ú¾Û’ اس سے انھیں قوت وطاقت اور اعتماد ملتاھے اور ان Ú©Û’ مشکل حالات ومصائب Ú©Ùˆ برداشت کرنے Ú©ÛŒ قوت تحمل اور استقامت کامادہ پیدا ھوجاتاھے ،اور انھیں وادی پر خار بھی گلزار نظر آتی Ú¾Û’ اور وہ میدان جنگ میں بھی اپنے ھمالیائی مظاہروں Ú©ÛŒ داد وتحسین حاصل کرتے ھیں اور اس دوران ان کا انداز بالکل ویسا Ú¾ÛŒ ھوتاھے جیسے ایک ڈوبتے ھوئے آدمی Ú©Ùˆ بچانے والے نجات غریق کا انتظار رہتاھے اسی لئے میدان جنگ میں لڑتے ھوئے مجاہدین کا جذبہ جہاد Ú©Ú†Ú¾ اور مھمیز ھوجاتاھے اور عین لڑائی Ú©Û’ دوران بھی فرعون وہامان Ú©Û’ مقابلہ میںخدا Ú©Û’ رسول جناب موسیٰ بن عمران  -اپنی قوم بنی اسرائیل Ú©Û’ ساتھ قدم جمائے ھوئے نظر آتے ھیں یہ صرف وعدہٴ الٰھی اور انتظار فرج اور خدا وندعالم Ú©ÛŒ نصرت ومدد Ú©Û’ انتظار کا جوہر اور کرشمہ Ú¾Û’Û”

ذراسورہٴ اعراف کی ان آیتوں پر غور فرمائیں:



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 next