تاریخ آل سعود



ان كے علاوہ ضریح مبارك كے پاس تقریباً 50لوگوں كو اور صحن میں 500لوگوں كو قتل كردیا، وہ لوگ جس كو بھی پاتے تھے وحشیانہ طریقہ سے قتل كردیا كرتے تھے، یھاں تك كہ بوڑھوں اور بچوں پر بھی كوئی رحم نھیں كیا، اس حادثہ میں مرنے والوں كی تعداد كو بعض لوگوں نے ایك ہزار او ربعض لوگوں نے پانچ ہزار بتائی ھے۔

سید عبد الرزاق حسنی صاحب اس سلسلہ میں فرماتے ھیں كہ1216ھ میں وھابیوں كے لشكر نے جس میں 600 اونٹ سوار اور 400 گھوڑے سوار تھے كربلا پر حملہ كردیا اور یہ اس وقت كا واقعہ ھے جب اكثر لوگ نجف اشرف كی زیارت كے لئے گئے هوئے تھے۔

حملہ آوروں نے حضرت امام حسینں اور جناب عباسں كے روضوں كو بھت زیادہ نقصان پهونچایا، اور ان دونوں روضوں میں جوكچھ بھی تھا وہ سب غارت كردیا، اور ساری قیمتی چیزیں جیسے قیمتی پتھر ”ساج“ كی لكڑی، بڑے بڑے آئینے اور جن ہدیوں كو ایران كے وزیروں اور بادشاهوں نے بھیجا تھا ان سب كو لوٹ لیا، اور در ودیوار میں لگے قیمتی پتھروں كو ویران كردیا اور چھت میں لگے سونے كو بھی لے گئے اور وھاں پر موجود تمام قیمتی اور نفیس قالینوں، قندیلوں اور شمعدانوں كو بھی غارت كرلیا۔

قارئین كرام!جیسا كہ آپ حضرات نے ملاحظہ كیا كہ مختلف كتابوں نے وھابیوں كی تعداد اور مقتولین كی تعداد میں اختلاف كیا ھے ۔ لیكن وھابی موٴلف كی تحریر كے مطابق جس كو ھم نے پھلے ذكر كیا ھے اور دوسرے شواہد كی بناپر وھابیوں كی تعداد بیس ہزار او رمرنے والوں كی تعداد پانچ ہزار سے زیادہ صحیح دكھائی دیتی ھے۔

حسینی خزانہ كے بارے میں

حاج زین العابدین شیروانی صاحب جو تقریباً محمد بن عبد الوھاب كے ھم عصر تھے اور ایك طولانی مدت سے كربلا میں مقیم تھے اور كربلا پر وھابیوں كا حملہ ا نھیں كے زمانہ میں رونما هوا ھے، موصوف اپنی كتاب ” حدائق السیاحہ“ میں وھابیوں كے حملے كی تفصیل اس طرح لكھتے ھیں: ”روضہ امام حسین ں كا تمام زر وزیور، قندیلیں، سونے اور چاندی كے ظروف او رجواھر وغیرہ سب وہ (وھابی) ظالم لوٹ لے گئے اور باقی تمام دوسری چیزیں غارت كردیں، سوائے وہ سامان جو ان كے پهونچنے سے پھلے پھلے كاظمین پهونچادیا گیا تھا بچ گیا۔

میر عالم صاحب جو دكھن (ہند وستان) كے نوابوںمیں سے تھے انھوں نے اس واقعہ كے بعد كربلا شھر كے چاروں طرف دیوار بنوائی اور اس كے قلعہ كو گچ (چونے) اور اینٹوں سے مضبوط كرایا، اسی طرح آقا محمد خان شھریار ایران نے وھابیوں كے حملے سے پھلے حضرت امام حسین ں كے روضہ كو بنایا اور اس كے گنبد كو سونے كی اینٹوں سے بنوایا۔

وھابیوں كے نجف اشرف پر حملے كے ضمن میں یہ بات بیان كی جائے گی كہ جب نجف كے علماء اور اھم لوگوں كو یہ پتہ چلا كہ وھابی نجف پر بھی حملہ كرنے والے ھیں تو انھوں نے حضرت امیر المومنینں كے خزانہ كو كاظمین پهونچادیا۔

لیكن حضرت امام حسین (ع) كے خزانہ كو كاظمین لے جانے كے بارے میں صرف جناب شیروانی صاحب نے نقل كیا ھے اس كے علاوہ اگر كسی نے بیان كیا هو، توموٴلف كی نظر وں سے نھیں گذرا، جبكہ تمام لكھنے والوں نے یھی لكھا ھے كہ كربلائے معلی كا سب سامان غارت كردیا گیا،جیسا كہ ھم نے وھابیوں كے كربلا پر حملہ كے ضمن میں اشارہ بھی كیاھے، اور یھی بات صحیح بھی دكھائی دیتی ھے كیونكہ ساكنین كربلا كو اس حملہ كے بارے میں كوئی خبر نھیں تھی وہ بالكل بے خبر تھے تو كس طرح وہ سامان كاظمین لے جانا ممكن هوسكتا ھے۔

اور ادھر سے یہ بھی معلوم ھے كہ كربلا كے مومنین خصوصاً جوان اور كار آمد لوگ وھابیوں كے حملے سے ایك یا دو دن پھلے ھی عید غدیر كی مناسبت سے نجف اشرف زیارت كے لئے گئے تھے اور اگر ان لوگوں كو وھابیوں كے اس حملہ كا ذرا سا بھی احتمال هوتا تو یہ لوگ اپنے شھر كو چھوڑ كر نہ جاتے اور عورتوں اور بچوں او ربوڑھوں كو دشمن كے مقابلے میں چھوڑ كر نہ جاتے۔ ظاھر ھے كہ كاظمین اس خزانہ كا منتقل كرنا اسی صورت میں ممكن تھا جب ان كو اس حملہ كی خبر هوتی یا اس كا احتمال دیتے۔

كربلا ئے معلی پر وھابیوں كا حملہ، عثمانی موٴلفوں كی نظر میں

”شیخ رسول كركوكلی“ تیرهویں صدی ہجری كی ابتداء كے عثمانی موٴلف نے1132ھ سے 1237ھ تك كے عراق، ایران اور عثمانی واقعات پر مشتمل ایك كتاب اسلامبولی تركی میں لكھی ھے، اور موسیٰ كاظم نورس نے مذكورہ كتاب كا عربی میں ترجمہ كیا ھے جو ”دوحة الوزرا“ كے نام سے طبع هوچكی ھے۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 next