تاریخ آل سعود



اس كے بعد سے آل رشید جبل شمر پر مستقر هوگئے اور انھوں نے بھی اپنے علاقہ میں توسیع كرنا شروع كردی، یھاں تك كہ اسی خاندان كے ایك حاكم بنام محمد نے ریاض پر بھی غلبہ حاصل كرلیا، اور عبد العزیز سعودی امیر كو بھی نجد سے باھر نكال كر كویت بھیج دیا، لیكن ان سب كے باوجود اس كی قدرت كچھ ھی مدت كے بعد جواب دے گئی اور عبد العزیز بن سعود نے اس پر حملے شروع كردئے، اور 1336ھ میں كلی طور پر اس (آل رشید) كا صفایا كردیا۔

آل رشید كے قدرتمند حاكم محمد كے دورمیں(یعنی1285ھ سے 1315ھ تك) شمر نامی پھاڑ پر یورپی سیّاحوں كو گھومنے پھرنے كی اجازت مل گئی، اور جیسا كہ ھم نے پھلے بھی عرض كیا ھے كہ كئی یورپی سیاحوں نے اس علاقہ كا نزدیك سے دیدار كیاھے۔

نجد پر تركوں كا دوبارہ حملہ اور فیصل كو گرفتار كركے جلا وطن كرنا

مصر كے سپاھیوں كا ایك گروہ احمد پاشا كی سرداری میں مكہ میں مقیم تھا، احمد بن عون نے شریف مكہ احمد پاشا كو ”عَسِیْر“ نامی (نجد كے نزدیكی علاقہ) پر حملہ كرنے كے لئے ابھارا، اور اس نے حملہ كرنے كا پروگرام بنالیا، پھلے تو عسیر كے لوگوں نے فرمانبرداری كا اظھار كیا لیكن موقع پاكر مصریوں كو نیست ونابود كردیا۔

چنانچہ ایك بار پھر مصری فوج نے نجد پر حملہ كیا او رشھر ریاض كو اپنے قبضے میں لے لیا اور امیر فیصل احساء كی طرف بھاگ گیا۔

قارئین كرام!جیسا كہ نجد پر عثمانیوں كے حملوں سے معلوم هوتا ھے كہ عثمانی اور مصری فوج آسانی كے ساتھ نجد كو اپنے قبضہ میں لے لیا كرتی تھی، لیكن ان كو وھاں رہنے میں بڑی مشكلوں كا سامنا تھا، جیسے وھاں كی آب وهوا جو مصری اور تركی فوج كے لئے مناسب نھیں تھی، یا مختلف قبیلوں كی طرف سے هونے والی مشكلات كی وجہ سے پریشان هوتے تھے یادوسری وجوھات، بھر حال عثمانی لشكر نجد كو فتح كرنے كے بعد اس كو اس كے حال پر چھوڑ كر واپس هوجاتے تھے۔

اس بار بھی ایسا ھی هوا ریاض اورنجد میں عثمانی لشكر كمزور هونے لگا ادھر فیصل احساء سے ریاض واپس آگیا لیكن وہ پھر بھی ریاض پر قبضہ نہ كرسكا۔

1254ھ میں خورشید پاشا مصری سپاہ كے سردار نے ملا سلیمان كی سرداری میں ایك طاقتور لشكر ”قصیم“ نامی علاقہ سے ریاض كے لئے بھیجا، اور حكم دیا كہ اسماعیل آقا جو مصر كے سابق سردار تھے ان كو واپس بھیج دو، اور ایك مدت كے بعد خود خورشید پاشا ”عنیزہ“ شھر میں آئے، اور خورشید پاشا اور فیصل كے درمیان گئی ایك حملے هوئے جس كے نتیجہ میں فیصل كو سر تسلیم خم كرنا پڑا، اور اس كو مصر كے لئے روانہ كردیا۔

فیصل كا مصر سے فرار

صلاح الدین مختار صاحب، مصر سے فیصل كے بھاگنے كے بارے میں دو قول بیان كرتے ھیں جن میں سے ایك قول ابن بشر كا ھے جو انھوں نے كتاب عنوان المجد فی تاریخ نجد، سے لیا ھے كہ فیصل اپنے بھائی اور چچا زاد بھائی او راپنے دو بیٹوں عبد اللہ او رمحمد كے ساتھ اس محل سے بھاگ نكلے جس میں ان كو ركھا گیا تھا، ان كا بھاگنے كا طریقہ یہ تھا كہ مذكورہ محل كی دیوارمیں 70 گز كی اونچائی پر ایك موری تھی، انھوں نے كسی مخفی طریقہ سے باھر سے ایك رسی منگائی اور اس رسی كے ذریعہ باھر نكل گئے اور وھاں پر ان كے لئے پھلے سے گھوڑے تیار تھے ان پر بیٹھ كر شمّر نامی پھاڑ كی طرف بھاگ نكلے۔

دوسرا قول امین ریحانی صاحب كا (كتاب نجد الحدیث میں) ھے، كہ خود محمد علی پاشا نے اس كو زندان سے رھا كردیا تاكہ امیر نجد كے عنوان سے اپنے وطن لوٹ جائے، (اس قول كے مطابق فرار كا نام دیا جانا صحیح نھیں ھے)

لیكن صلاح الدین مختار صاحب نے ابن بشر كے قول كو صحیح مانا ھے كیونكہ یہ فیصل كے ھم عمر تھے۔

بھر حال جب فیصل نجد میں واپس پهونچ گئے تو انھوں نے كوہ شمّر كو اپنا دار الحكومت بنایا، اس وقت اس كے بنی اعمام (چچا كی اولاد) میں سے عبد اللہ بن ثنیان نامی ایك شخص 1257ھ میں جنگ وجدال كے بعد ریاض كے علاقہ پر حكمرانی كررھا تھا، فیصل نے اس كو بعض واقعات كی بنا پر گرفتار كركے زندان بھیج دیا، آخر كار یہ شخص زندان میں ھی مرگیا۔

امیر فیصل كا شمار آل سعود كے سب سے طاقتور بادشاهوں میں هوتا ھے،اور اسی نے فتنہ وفساد كی آگ كو خاموش كیا اور كئی سال سے پھیلے افرا تفری كے ماحول كا خاتمہ كركے امن وامان قائم كیا اور اپنی حكومت میں اضافہ كیا، 1268ھ كے بعد ایك بار پھر نجد كے مختلف علاقوں میں آشوب اور اختلاف برپا هوا ان سب كو ختم كرنے كے لئے فیصل نے بھت كوشش كی۔

آخر كار ماہ رجب1282ھ میں فیصل كا انتقال هوگیا، اور اس كے مرنے كے بعد سعودی حكومت میں اختلاف شروع هوگیا۔

 



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28