تاریخ آل سعود



وھابی لشكر كربلا میں داخل هونا ھی چاھتا تھا لیكن اس طرف سے اھل كربلا اپنے دفاع میں لگے هوئے تھے، انھوں نے ان پر حملہ كیا، جس كی وجہ سے وہ لوگ كربلا پر حملہ كی فكر چھوڑ كر نكل بھاگے، ابن بشر صاحب نے (گویا صلاح الدین مختار نے اس واقعہ كی تفصیل انھیں سے نقل كی ھے) مذكورہ واقعہ كو1222ھ میں نقل كیا ھے اور اس طرح كھتے ھیں كہ گولیوں سے حملہ كی وجہ سے بھت سے (سپاہ سعود كے) سپاھی قتل هوئے اور جب سعود نے دیكھا كہ كربلا شھر كی دیوار مضبوط اور مستحكم بنی هوئی ھے اس نے ان كو كربلا پر حملہ كرنے سے روكا اور عراق كے دوسرے علاقوں كا رخ كیا ۔

مرحوم علامہ سید محمد جواد عاملی صاحب نے بھی مفتاح الكرامہ كی ساتویں جلد كے آخر میں اس طرح بیان كیا ھے كہ یہ كتاب رمضان المبارك1225ھ كی نویں تاریخ كی آدھی رات میں ختم هوئی جبكہ ھمارا دل بھت پریشان تھا كیونكہ ”عُنَیْزَہ“ كے عربوں نے جو وھابی خارجیوں كے عقائد سے متاثر تھے، نجف اشرف كے اطراف اور قرب وجوار نیز حضرت امام حسین ں كے روضہ پر حملہ كیا اور

وھاں پر قتل وغارت كا كھیل كھیلا، اس وقت كے مقتولین كی تعداد 150افراد بتائی جاتی ھے اگرچہ بعض لوگ اس تعداد كو اس سے بھی كم بتاتے ھیں۔

”عبد اللہ فیلبی“ صاحب كھتے ھیں كہ كربلا پر وھابیوں كے اس حملہ نے شیعوں كے ساتھ ساتھ دوسرے لوگوں كو تعجب اور حیرانی میں ڈال دیا، لیكن اس حملہ كے انتقام میں ایك بھترین محاذبن گیا جس كی بنا پر سعودی حكومت كو كافی نقصان اٹھانا پڑا۔

وھابیوں كے كربلا پر حملے كاذكر ایرانی كتابوں میں

بعض ان ایرانی علماء نے اس حادثہ كو اپنی كتابوں میں لكھا ھے جو وھابیوں كے حملہ كے وقت یا اس كے نزدیك زندگی بسر كرتے تھے ،یھاںان كی بعض تحریروں كو هوبهو یا خلاصہ كے طور پر نقل كرنا زیادہ مناسب ھے۔

(موٴلف كی اطلاع كے مطابق) ایرانی موٴلفوں میں سب سے قدیمی كتاب جس میں اس حادثہ كے بارے میں تحریر ھے وہ میرزا ابو طالب اصفھانی كی كتاب ھے، موصوف وھابیوں كے كربلامیں قتل عام كے گیارہ ماہ كے بعد كربلا پهونچے ھیں، او رجس وقت وھاں پهونچے ھیں صرف یھی واقعہ زبانزد خاص وعام تھا چنانچہ موصوف اس سلسلہ میں یوں رقمطراز ھیں:

كربلا میں وھابیوں كے حملہ كا ذكر

18 ذی الحجہ (عید غدیر) كو كربلا كے اكثر اور معتبر افراد نجف اشرف میں حضرت امیر المومنین علی ں كی مخصوص زیارت كے لئے گئے هوئے تھے، ادھر 25000 كا وھابی لشكر (عربی گھوڑوں اور بھترین اونٹوں پر سوار) شھر كربلا میں داخل هوا، جس میں سے بعض لوگ زائرین كے لباس میں پھلے ھی سے شھر میں داخل هوچكے تھے اور شھر كا حاكم عمر آقا ان كے ساتھ ملا هوا تھا(یعنی ان سے سانٹھ گانٹھ كئے هوئے تھا ”یہ بات حاشیہ سے نقل هوئی ھے“) جس كی وجہ سے وھابی لوگ پھلے ھی حملے میں شھر میں داخل هوگئے اور یہ نعرے بلند كئے، ”اقتلوا المشركین“ و ” اذبحوا الكافرین“،یہ سن كر عمر آقا ایك دیھات كی طرف بھاگ نكلا، لیكن بعد میں اپنی كوتاھیوں كی بناپر سلیمان پاشا كے ھاتھوں قتل كیا گیا۔

وہ لوگ قتل وغارت كے بعد گنبد كی سونے كی اینٹوں كو اكھاڑنا چاھتے تھے لیكن چونكہ یہ اینٹیں بھت مضبوطی سے لگائی گئی تھیں، لہٰذا جب ان كو اكھاڑ نہ سكے تو گنبد كے اندر كا حصہ كلھاڑیوںوغیرہ سے توڑ ڈالا اور عصر كے وقت بے خوف وخطر اپنے وطن كو لوٹ گئے، تقریباً پانچ ہزار لوگوں كو قتل كیا او ر زخمیوں كی تعداد تو بے شمار تھی منجملہ میرزا حسن ایرانی شاہزادہ، میرزا محمد طبیب لكھنوی وعلی نقی لاهوری اور ان كے ساتھ میرزا قنبر علی وكنیز وغلام وغیرہ،اور حضرت امام حسین ں كے روضہ مبارك اور شھر كا جتنا بھی قیمتی سامان تھا سب غارت كردیا۔

اس قتل وغارت میں حضرت امام حسین ں كے صحن میں مقتولین كا خون بہہ رھا تھا اور صحن مبارك كے تمام حجرے مقتولین كی لاشوں سے بھرے پڑے تھے، حضرت عباس ں كے روضہ اور گنبد كے علاوہ، اور كسی كو بھی اس حادثہ سے نجات نھیں ملی، اس حادثہ كی وجہ سے لوگوں میں اس قدر خوف ووحشت تھی كہ میں اس حادثہ كے گیارہ مھینہ بعد كربلائے معلی گیا هوں لیكن پھر بھی اس حادثہ میں اتنی تازگی تھی كہ صرف یھی حادثہ لوگوں كی زبان پر تھا، اور جو لوگ اس حادثہ كو بیان كرتے تھے وہ حادثہ كو بیان كرتے كرتے رونے لگتے تھے اور اس حادثہ كی وہ درد بھری داستان تھی كہ سننے والوں كا بھی رُواں كھڑا هوجاتا تھا۔

لیكن اس حادثہ كے مقتولین كو بڑی بے غیرتی سے قتل كیا گیا تھا بلكہ جس طرح گوسفند كاھاتھ پیر باندھنے كے بعد بے رحم قصّاب كے حوالے كردیاجاتا ھے اس طرح سے ان لوگوں كو ذبح كیا گیا۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 next