تاریخ آل سعود



مرحوم سید محمد جواد عاملی جو خود اس واقعہ كے چشم دید گواہ اور دفاع كرنے والوں میں سے تھے، مفتاح الكرامہ كی پانچویں جلد كے آخر میں یوں رقمطراز ھیں كہ ماہ صفر كی نویں تاریخ كو نماز صبح كے ایك گھنٹہ پھلے وھابیوں نے اچانك ھم پر دھاوا بول دیا یھاں تك كہ ان میں سے بعض لوگ شھر كی دیوار پر بھی چڑھ گئے اور قریب تھا كہ وہ شھر پر قبضہ كرلیتے۔

لیكن حضرت امیر المومنین علی ں سے معجزہ رونما هوا، اور ان كے كرم سے كچھ ایسا هوا كہ دشمن كے بھت سے لوگ مارے گئے اور وہ بھاگنے پر مجبور هوگئے، اگرچہ علامہ عاملی نے واقعہ كی تفصیل بیان نھیں كی ھے۔

اسی طرح علامہ موصوف جلد ہفتم كے آخر میں كھتے ھیں كہ اس كتاب كا یہ حصہ ماہ رمضان المبارك كی نویں تاریخ1225ھ كی تاریخ آدھی رات میں تمام هوا جبكہ ھمارا دل مضطرب اور پریشان ھے كیونكہ ”عُنَیْزَہ“ كے وھابیوں نے نجف اشرف اور كربلائے معلی كو گھیر ركھا تھا۔

”رَحبہ“ كے بارے میں ایك وضاحت

نجف اشرف پر حملہ كر نے كے لئے وھابیوں نے ”رَحبہ“ كو اپنی چھاؤنی بنا لیا تھا،رحبہ نجف اشرف كے نزدیك ایك سر سبز وشاداب علاقہ ھے ،یہ علاقہ ایك ثروتمند اور مالدار شخص سید محمود رَحباوی سے متعلق تھا، جب بھی وھابی لوگ نجف اشرف پر حملہ كرنا چاھتے تھے تو سب سے پھلے مقام رحبہ میں جمع هوتے تھے، اور سید محمود ان كا بھت احترام كرتا تھا، نیز ان كی خاطر ومدارات كرتا تھا، اسی وجہ سے كھا جاتا ھے كہ اسی شخص نے نجف اشرف پر حملہ كرنے كی راہنمائی بھی كی تھی۔

مرحوم كاشف الغطاء جو دفاع كرنے والوں كے سرپرستوں میں سے تھے، ان كو جب اس بات كا علم هوا تو انھوں نے سید محمود كو پیغام بھجوایا :

جب تم یہ احساس كرو كہ وھابی لشكر نجف اشرف پر حملہ كرنا چاھتے ھیں تو ھمیں ضرور آگاہ كردینا، تاكہ ھم غفلت میں نہ رھیں، بلكہ دفاع كے لئے تیار رھیں۔ سید محمود نے جواب دیا كہ میں ایك ثروت مند آدمی هوں اور بھت سی پراپرٹی ركھتا هوں میں وھابیوں كے منھ میں ایك لقمہ كی طرح هوں لہٰذا میں ڈرتا هوں، كاشف الغطاء نے اس كا یہ جواب دیكھ كر مجبوراً نجف كے كچھ جوانوں كو اسلحہ كے ساتھ معین كیا اور ان كی تنخواہ بھی مقرر كی، تاكہ یہ جوان اس طرف سے شھر پر هونے والے حملہ كا خیال ركھیں۔

اس كے بعد سے ایك طولانی مدت تك خصوصاً عراق پر ملك فیصل كے انتخاب كے بعد سے (یعنی پھلی عالمی جنگ كے بعد) عراق پر نجدیوں كے حملے هوتے رھتے تھے، جس میں كافی قتل وغارت هو تی رھتی تھی لیكن یہ حملے تقریباً سیاسی جھت ركھتے تھے ان حملوں كا مذھب سے كوئی تعلقنھیں تھا،منجملہ ان كے 12رجب المرجب كی شب كو نجد كے ”جمعیة الاخوان“ نامی گروہ نے عراقی قبیلہ ”منتفق“ پر حملہ كیاجس میں بھت نقصانات هوئے جن كی فھرست حكومت عراق كی طرف سےمعاینہ كمیٹی نے اس طرح بیان كی ھے كہ اس حملہ میں694لوگ مارےگئے،130گھوڑے،2530اونٹ،3811 گدھے، 34010 گوسفنداور 781 گھر غارت هوئے، جس گروہ نے یہ حملہ كیا وہ ”دویش“ (اخوان كے روٴسا) كے پیروكار تھے۔

اھل عراق وھابیوں كے حملوں سے تنگ آچكے تھے، لہٰذا انھوں نے مجبور هوكر حكومت سے یہ مطالبہ كیا كہ اس طرح كے حملوں كی روك تھام كے لئے كوئی ٹھوس قدم اٹھائے، اس حالت كو دیكھ كر بھت سے وزیروں نے استعفاء دیدیا، اس كے بعد انگلینڈ كی حكومت نے ”سر پرسی كاكْس“ كو بھیج كر عراق اور ابن سعود كی حكومت كے درمیان صلح كرادی۔

كربلا میں ایك عظیم انجمن كی تشكیل

حكومت عراق اور انگلینڈ كی تدبیروں سے عراقی عوام مطمئن نہ هوسكی، اور وھابیوں كے دوبارہ حملہ كوروكنے كے لئے صحیح اور مطمئن راستہ كا انتخاب كرنا چاھا، چنانچہ سب لوگوں نے علماء كی طرف رجوع كیا۔

نجف اشرف كے علماء نے مشهور ومعروف مجتہد حاج شیخ مہدی خالصیۺ جن كا حكومت عراق میں اچھاخاصا رسوخ تھاان كو ٹیلیگرام كے ذریعہ ان سے درخواست كی كہ عراق كے تمام قبیلوں كے سرداروں كو 12شعبان (1240ھ)كو كربلائے معلی میں جمع كریں۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 next