تاریخ آل سعود



كتاب”دوحة الوزرا“ میں ایسے واقعات موجود ھیں جو خود موٴلف كے زمانہ میں رونما هوئے، اور شاید بھت سے واقعات كے وہ خود بھی شاہد هوں، لہٰذا اس كتاب كے واقعات خاص اھمیت كے حامل ھیں۔

اس كتاب كے تفصیلی اور دقیق مطالب میں سے عراق پروھابیوں كے حملے بھی ھیں اور بغداد كے والیوں كی طرف سے هونے والی تدبیروں اور عراق كے حكام كی طرف سے نجد كے علاقہ پر لشكر كشی كرنا بھی موجود ھے لہٰذا ھم یھاں پر كربلائے معلی پر وھابیوں كے حملہ كو اس كتاب سے نقل كرتے ھیں:

1214ھ میں قبیلہ خزائل اور وھابیوں كے درمیان نجف اشرف میں هوئی لڑائی اور وھابیوں كے تین سو كے قریب هوئے قتل كو دےكھتے هوئے عبد العزیز سعودی بادشاہ نے عراق كے حكام كو ایك خط لكھا كہ جب تك مقتولین كی دیت ادا نہ كی جائے اس وقت تك عراق اور نجد میں هوئی صلح باطل ھے۔

سلیمان پاشا والی ٴبغداد نے صلح نامہ كو برقرار ركھنے كے لئے عبد العزیز كے پاس ”عبد العزیزبیك شاوی“ (اپنے ایك اھم شخص) كو بھیجا جو حج كا بھی قصد ركھتا تھا اس كو حكم دیا كہ اعمال حج كے بجالانے كے بعد وھابی امیر كے پاس جائےں اور اس سے صلح نامے كو باطل كرنے سے پرھیز كرنے كے بارے میں گفتگو كریں۔

عبد العزیز بیك نے والی بغداد كے حكم كے مطابق عمل كیااور سعودی امیر عبد العزیز سے گفتگو كی لیكن كوئی فائدہ نھیں هوا، آخر میں عبد العزیز نے یہ پیشكش كی كہ وھابیوں كے بھے خون كے بدلے میں نجد كے عشایر كو ”شامیہ“ (عنّہ اور بصرہ كے درمیان) علاقہ میں اپنے چارپایوں كو چرانے دیا جائے، او راگر ان كو روكا گیا تو پھر صلح نامہ كے پیمان كو توڑنے میں كوئی حرج نھیں هوگا۔

جب عبد العزیز شاوی، عبد العزیز وھابی كو قانع كرنے سے ناامید هوگئے تو انھوں نے ایك قاصد بغداد كے والی كے پاس بھیجا اور اس كو گفتگو كی تفصیل سے آگاہ كیا اور یہ بھی بتایاكہ وھابی لوگ اپنے مقتولین كا انتقام لینے كی غرض سے عراق كا رخ كرچكے ھیں ۔

والی بغداد نے وھابیوں كے احتمالی حملہ كی وجہ سے كافی انتظامات كئے، كئی مھینہ گذر جانے كے بعد بھی وھا بی حملہ كرنے كے لئے نھیں آئے۔

1216 ھ میں شھر بغداد میں وباپھیل گئی اور آہستہ آہستہ یہ وبا شھر كے قرب وجوار میں بھی پھیلنے لگی، یہ دیكھ كر شھر كے لوگ بھاگ نكلے، اسی وقت شیخ حمود رئیس قبیلہ منتفق نے والی شھر كو خبر دار كیا كہ سعود بن عبد العزیز اپنے ایك عظیم لشكر كے ساتھ عراق پر حملہ كرنے كے لئے آرھا ھے۔

بغداد كے والی نے علی پاشا كو حكم دیا كہ وہ وھابیوں كو روك دے اور قتل غارت نہ هونے دے، علی پاشا ”دورہ“ نامی علاقہ كی طرف چلے تاكہ دوسرے لشكر بھی اس سے ملحق هوجائیں، راستہ میں بعض عشایر كا لشكر بھی اس سے ملحق هوگیا۔

ادھر جب علی پاشا اپنے لشكر كو وھابیوں سے مقابلہ كرنے كے لئے تیار كررھے تھے تو ان كو یہ خبر ملی كہ وھابیوں نے كربلا پر حملہ كردیا ھے اور وھاں پر بھت زیادہ قتل وغارت كرڈالاھے، جس میں تقریباً ایك ہزار لوگوں كو تہہ تیغ كردیا، اس وقت علی پاشا نے محمد بیك شاوی كو وزیر كے پاس بھیجا تاكہ اس كو مذكورہ واقعہ سے خبردار كرے اور یہ خبر پاتے ھی فوراً وہ كربلا كی طرف روانہ هوئے تاكہ حملہ آوروں پر كامیابی حاصل كرے اور ان سے اس قتل وغارت كا انتقام لے، اور شھر كو دشمنوں كے پنجہ سے نجات دلائے، لیكن ابھی علی پاشا شھر حلہ میں ھی پهونچے تھے كہ اس كو خبر ملی كہ وھابی لوگ قتل وغارت كے بعد ”اخیضر“ نامی علاقہ كی طرف چلے گئے ھیں، یہ سننے كے بعد علی پاشا بعض وجوھات كی بناپر حلّہ میں ھی رہ گئے، كیونكہ جب انھوں نے یہ خبر سن لی كہ وھابی لشكر كربلا سے نكل چكا ھے تو ان كا كربلا جانا بے فائدہ تھا پھر بھی احتیاط كے طور پر مختصر سے لوگوں كو كربلا بھیج دیا۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 next