تاریخ آل سعود



اور جس وقت وھابی لشكر شھر سے باھر نكل گیا اس وقت اطراف كے اعراب نے ان كے پلٹنے كا شور مچایا اور جب شھر كے لوگ دفاع كے لئے شھر سے باھر باغات كی طرف پهونچے تو خود وہ اعراب گروہ گروہ كركے شھر میں داخل هوئے اور وھابیوںسے بچا هوا تمام سامان غارت كردیا، اس طرح شب وروز لوٹ مار هوتی رھی، اور اس وقت جو شخص بھی شھر میں داخل هوتا تھا وہ قتل هوجاتا تھا، اور جب ھم نے وھابی مذھب كے اصول وفروع اور اس كے ایجاد كرنے والے كا حسب ونسب معلوم كیا تو كسی نے نھیں بتایا، كیونكہ اس شھر كے رہنے والے افراد عثمانی بادشاهوں كے تحت تاثیر اور نسبتاً كم عقلی كی وجہ سے ان كے بارے میں نھیں جانتے تھے اور اس كے معلوم كرنے كی ضرورت بھی نھیں سمجھتے تھے۔

سید عبد اللطیف شوشتری نے كتاب ”تحفة المعالم“ میں شھر كربلا پر وھابیوں كے حملے كا ذكر كیا ھے اور وھابیوں كے بعض عقائد كو لكھا ھے جس كو ھم نے باب پنجم میں ذكر كیا ھے، یھاں پر یہ بات قابل ذكر ھے كہ مذكورہ كتاب ”تحفة المعالم“1216ھ كی تالیف ھے یعنی جس سال كربلائے معلی پر وھابیوں كا حملہ هوا ھے اور اس كتاب كا ضمیمہ دوسال بعد بنام ”ذیل التحفة“ كے نام سے لكھا گیا ھے۔

مرحوم میرزائے قمی كا وہ خط جس میں وھابیوں كے بارے میں ان كے كربلا كے حملہ كے ضمن میں ذكر هوا ھے جس كو ھم نے عبد الرزاق دنبلی كی تفصیل كے ساتھ باب پنجم میں بیان كیا ھے۔

اس سلسلہ میں رضا خان ہدایت صاحب یوں رقمطراز ھیں كہ1216ھ كے آخری حصے میں 18 ذی الحجہ عید غدیر صبح كے وقت سعود اور اس كے لشكر نے حضرت امام حسین ں كے روضہٴ مبارك پر حملہ كردیا اور بے خبری كے عالم میں شھر پر قبضہ كرلیا، اس وقت شھر كے بھت سے افراد زیارت امام علی (ع) كے لئے نجف اشرف گئے هوئے تھے اور صرف كمزور او ربوڑھے زاہد و عابد حضرات موجود تھے وہ لوگ روضہ امام حسین ں میں نماز اور عبادت میں مشغول تھے وھابیوں نے تجّار اور حرم میں ساكن افرادكے كئی لاكھ تومان غارت كردلئے اور بھت زیادہ كفر اور الحاد كا مظاھرہ كیا او رتقریباً چھ گھنٹوں میں سات ہزار علماء او رمحققین كو قتل كرڈالا، اور عورتوں اور بچوں اور بوڑھوں پر وہ ظلم كیا كہ ان كے خون سے سیلاب جاری تھا، حق پرست اور متقی لوگ جو حضرت امام حسین ں كے ساتھ رہكر شھادت كے درجہ پر فائز هونا چاھتے تھے لیكن اس زمانہ میں نھیں تھے انھیں حضرت كی بارگاہ میں جام شھادت مل گیا اور شہدائے كربلا كے ساتھ ملحق هوگئے۔

”میرزا محمد تقی سپھر “رقمطراز ھیں :”عبد العزیز نے جس وقت نجف اشرف كا رخ كیا اور حضرت كے روضہٴ مبارك پر حملہ كرنا چاھا او رنجف اشرف كے گنبد كو گرانا چاھا اور وھاں پر زیارت كرنے والوں كو جنھیں وہ اپنے خیال میں بت پرست جانتا تھا ان سب كو قتل كرنا چاھا تو اس نے سعود كی سرداری میں ایك لشكر تیار كیا اور نجف كی طرف روانہ كیا اس لشكر نے نجف اشرف كا محاصرہ كرلیا، قلعہ پر كئی حملے بھی كئے لیكن كوئی كامیابی حاصل نھیں هوئی، مجبوراً اس نے واپسی كا ارادہ كیا اور وھاں سے كربلا ئے معلی كا رخ كیا بارہ ہزار كے لشكر كے ساتھ طوفان كی طرح كربلائے معلی پر حملہ كردیا وہ دن عید غدیر كا دن تھا۔

شھر میں داخل هونے كے بعد انھوں نے پانچ ہزار لوگوں كا خون بھایا حضرت امام حسین كی ضریح مقدس كو بھی توڑ ڈالا، وھاں موجود قیمتی سامان جومختلف ممالك كے شیعوں كے ذریعہ بطور نذر وھاں آیا تھا سب غارت كردیا بھترین قندیلوں كو توڑ ڈالا سونے كی اینٹوں كو حرم مطھر كے دالان سے نكال لیا حرم مطھر میں ھر ممكن توڑ پھوڑ كی، اور چھ گھنٹے كی اس قتل وغارت كے بعد شھر سے باھر نكل گئے اورنفیس اور قیمتی سامان كو اپنے اونٹوں پر لاد كر درعیہ شھر كی طرف نكل گئے۔

قارئین كرام!جناب سپھر صاحب كی یہ عبارت دوسرے موٴلفوں سے فرق كرتی ھے،اسلئے كہ وھابیوں نے پھلے كربلا ئے معلی پر حملہ كیا اس كے بعد نجف اشرف پر حملہ كیا ھے مگر یہ احتمال دیا جائے كہ ان كی مراد قبیلہ خزاعل كے ذریعہ دفع شدہ حملہ هو جس كی تفصیل انشاء اللہ بعد میں آئے گی۔

وھابیوں كا خط فتح علی شاہ كے نام

میرزا ابو طالب كی تحریر كے مطابق كربلا كا حادثہ سلطان روم (بادشاہ عثمانی) او ربادشاہ عجم (فتح علی شاہ) كے كانوں میں كئی دفعہ پهونچایا گیالیكن ان میں سے كسی نے كبھی كوئی قدم نھیں اٹھایا لہٰذا عبد العزیز كے حوصلے اور بلند هوگئے اور حضرت رسول اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی طرح دنیا بھر كے بادشاهوں كو خط لكھنا شروع كیا، یھاں پرھم عبد العزیز كے ذریعہ فتح علی شاہ كو لكھے گئے خط كا ترجمہ پیش كرتے ھیں: ” اعوذباللّٰہ من الشیطان الرجیم بسم اللّٰہ الرّحمٰن الرحیم، من عبد العزیز امیر المسلمین الی فتح علی شاہ ملك عجم:

حضرت رسول خدا محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كے بعد ان كی امت میں بت پرستی رائج هوگئی ھے،كربلا ونجف میں لوگ قبور كی زیارت كے لئے جاتے ھیں جو پتھر اور مٹی سے بنائی گئی ھیں، وھاں جاكرقبروں كے سامنے سجدہ كرتے ھیں ان سے حاجت طلب كرتے ھیں، مجھ حقیر كو یہ معلوم ھے كہ سیدنا علی اور حسین ان كاموں سے بالكل راضی نھیں ھیں،میں نے دین مبین اسلام كی اصلاح كے لئے كمر ھمت باندھ لی ھے اور اللہ كی توفیق سے اب تك نجد، حجاز او رعرب كے دوسرے علاقوں میں اسلام كی اصلاح كردی ھے، لیكن ھماری دعوت كربلا اور نجف كے لوگوں نے تسلیم نہ كی چنانچہ ھم نے دیكھ لیا كہ اب اس كے علاوہ كوئی چارہ باقی نھیں رہ گیا ھے ھم ان سب كو تہہ تیغ كردیں یھی ان كے لئے مناسب بھی تھا،آپ نے سنا بھی هوگا، اسی بناپر اگر آپ بھی اسی طرح كا عقیدہ ركھتے ھیں تو آپ كو توبہ كرنا چاہئے كیونكہ اگر كوئی توبہ نھیں كرتا اور اپنے كفر وشرك پر بضد هوتا ھے تو ھم اسے كربلا كے لوگوں كی طرح سبق سكھادیتے ھیں، والسلام علی من تبع الہدیٰ۔

فتح علی شاہ كے اقدامات

میرزا عبد الرزاق صاحب یوں رقمطراز ھیں كہ اس (كربلا كے) حادثہ كے بعد فتح علی شاہ نے اسماعیل بیك بیات غلام كو (بغداد میںعثمانی بادشاہ كا والی) سلیمان پاشا كے پاس تفصیل لكھ كر بھیجا،كہ اگر دولت عثمانی كو كوئی اعتراض نہ هو تو ایران كا لشكر آپ كی مدد ونصرت كے لئے آسكتا ھے تاكہ فتنہ وھابیت كو خاموش كردیا جائے كیونكہ ابھی ان كی ساكھ نھیں جمی ھے لہٰذا كوئی خاص قدم اٹھایا جائے، اس خط كے جواب میں سلیمان پاشا نے عرض كیا كہ عثمانیہ حكومت كے حكم كے مطابق یہ طے هوچكا ھے كہ ایسے اسباب اور وسائل فراھم كئے جائیں كہ اس بدنھاد فرقہ كا نام ونشان تك مٹادیا جائے، آپ كی محبت كا شكریہ، ایران كے لشكر كی كوئی ضرورت نھیں ھے، اور روضوں كی تعمیر اور تلف شدہ مال كو عوض كرنا ھماری حكومت كی ذمہ داری ھے، اتفاقاً اسی دوران سلیمان پاشا صاحب اس دنیا سے چل بسے۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 next