تاریخ آل سعود



” سعود نجف اشرف آیا اور اس كا محاصرہ كرلیا دونوں طرف سے گولیاں چلنے لگی، نجف كے پانچ افراد قتل هوگئے جن میں سے ایك میرے چچا سید علی حسنی معروف بہ” ببراقی“ تھے۔

چونكہ اھل نجف وھابیوں كے كرتوت سے جو انھوں نے كربلا اور مكہ ومدینہ میں انجام دئے واقف تھے لہٰذا بھت پریشان او رمضطرب تھے عورتیں گھروں سے باھر نكل آئیں، اور جوانوںاور بزرگوں كو غیرت دلانے كے لئے بھت سے جملے كہنے لگیں، تاكہ وہ اپنے شھر اور ناموس سے دفاع كریں اور ان كی غیرت جوش میں آئے۔

تمام لوگ گریہ وزاری میں مشغول، خدا كی پناہ مانگ رھے تھے، اور حضرت علی ں سے مدد طلب كررھے تھے، اس وقت خدا نے ان كی مدد كی اور دشمن وھاں سے بھاگ نكلے اور تمام لوگ اپنے اپنے گھروں كوچلے گئے۔

نجف اشرف كے علماء اور طلاب كے دفاع كا دوسرا واقعہ

نجف اشرف كے لوگوں كو یہ احساس هوگیا تھا كہ وھابی لوگ پیچھا چھوڑنے والے نھیں ھیں، اور آخر كار نجف پر بھی حملہ كریں گے، اس بناپر انھوں نے سب سے پھلا كام یہ كیا كہ حرم حضرت امیر المومنین ں كے خزانہ كو بغداد منتقل كردیا، تاكہ حرم نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كے خزانہ كی طرح غارت نہ هو، اور اس كے بعد اپنی جان او راپنے شھر سے دفاع كے لئے تیار هوگئے۔

شھر نجف سے دفاع كرنے والوں كے سردار، شیعہ بزرگ عالم دین علامہ شیخ جعفر كاشف الغطاءۺ تھے جن كے ساتھ دیگر علماء بھی تھے، مرحوم كاشف الغطاء نے اسلحہ جمع كرنا شروع كیا، اور دفاع كے سلسلہ میں جس چیز كی بھی ضرورت سمجھی اس كو جمع كرلیا۔

اس تیاری كے چند دن بعد وھابیوں كا لشكر شھر سے باھر آكر اس امید میں جمع هوگیا كہ كل صبح هوتے ھی شھر پر حملہ كردیں گے اور قتل وغارت كریں گے، لہٰذا ساری رات شھر كی دیوار كے باھر گذار دی۔ كاشف الغطاءۺ كے حكم سے شھر كے دروازوں كو بند كردیا گیا او ران كے پیچھے بڑے بڑے پتھر ركھ دئے گئے، اس زمانہ میں شھر كے دروازے چھوٹے هوتے تھے، مرحوم شیخ كاشف الغطاء نے شھر كے ھر دروازے پر كچھ جنگجو جوانوں كو معین كیا اور باقی جنگجو افراد شھر كی دیوار كی حفاظت میں مشغول هوگئے۔ اس وقت نجف اشرف كی دیوار كمزور تھی اور ھر چالیس پچاس گز كے فاصلہ پر ایك برج تھا كاشف الغطاء نے ھر برج میں دینی طلباء كو بھر پور اسلحہ كے ساتھ تعینات كردیا ۔

شھر كے دفاع كرنے والوں كی تمام تعداد 200 سے زیادہ نھیں تھی، كیونكہ وھابیوں كے حملہ سے ڈر كر بھت سے لوگ بھاگ نكلے تھے اور عراق كے دوسرے علاقوں میں پناہ لینے چلے گئے تھے، صرف علماء میں مشهور حضرات باقی بچے تھے مثلاً شیخ حسین نجف اور شیخ خضر شلال، سید جواد صاحب مفتاح الكرامہ، شیخ مہدی ملا كتاب اور دوسرے بعض منتخب علماء حضرات، جو سب كے سب كاشف الغطاء كی مدد كررھے تھے، اور یہ سب لوگ مرنے اور مارنے پر تیار تھے، كیونكہ دشمنوں كی تعداد بھت زیادہ اور خود ان كی تعداد بھت كم تھی، لیكن تعجب كی بات یہ ھے كہ وہ دشمن جس نے یہ طے كرلیا تھا كہ صبح هوتے ھی حملہ كردیا جائے گا، ابھی صبح بھی نہ هونے پائی تھی كہ وہ سب پراكندہ هوگئے۔

صاحب كتاب ”صدف“ (ص 112) جو خود اس واقعہ كے چشم دید گواہ ھیں وھابیوں كے لشكر كی تعداد 15000ذكر كرتے ھیں جن میں سے 700لوگ قتل كردئے گئے۔

ابن بشر، نجدی مورخ نے نجف اشرف پر وھابیوں كے حملہ كے بارے میں كھا ھے كہ1220ھ میں سعود نے اپنے عظیم لشكر كے ساتھ مشہد معروف عراق (مقصود نجف اشرف ھے) كا رخ كیا اور وھاں پهونچ كر اپنے سپاھیوں كو شھر كے چاروں طرف پھیلا دیا، اور شھر كی دیوار كو گرانے كا حكم دیدیا، جب اس كے سپاھی شھر كی دیوار كے نزدیك هو ئے تو انھوں نے دیكھا كہ ایك بھت بڑی خندق ھے جس سے نكلنا مشكل ھے، لیكن دونوں طرف سے گولیوں اور تیروں كی وجہ سے وھابی لشكر(ابن بشر كے قول كے مطابق مسلمانوں كے لشكر) كے بھت سے لوگ مارے گئے، یہ دیكھ كر وہ لوگ شھر سے پیچھے ہٹ گئے اور دوسرے علاقوں میں قتل وغارت كرنے كے لئے روانہ هوگئے۔

خلاصہ یہ كہ نجف اشرف كے اوپر وھابیوں كے حملوں كا سلسلہ جاری رھا لیكن انھیں كوئی كامیابی نھیں مل پا تی تووہ مجبور هوكر لوٹ جاتے تھے، اھل نجف وھابیوںكے شر سے رھائی كے لئے خدا كی پناہ مانگتے تھے او رحضرت علی ں سے متوسل هوتے تھے، جس كی بنا پر ان كی ھمیشہ مدد هوتی رھی۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 next