تاریخ آل سعود



جمیل صدقی زھاوی، فتح مكہ كے بارے میں كھتے ھیں كہ وھابیوں كے سب سے برے كاموں میں سے (مسلمانوں) كا قتل عام ھے جس میں چھوٹے بڑوں كے علاوہ وہ شیر خوار بچے بھی ھیں جن كو ان كی ماوٴں كے سینہ سے چھین كر ان كے سروتن میں جدائی كردی، اور ایسے بچوں كو بھی تہہ تیغ كردیا جو قرآن پڑھنے میں مشغول تھے، اور جب گھروں میں كوئی باقی نھیں بچتا تھا تووھاں سے مسجدوںاور دكانوںكا رخ كیا كرتے تھے اور وھاں پر موجود تمام لوگوں كو قتل كردیتے تھے یھاں تك كہ جو لوگ ركوع اور سجدے كی حالت میں هوتے تھے ان كو بھی قتل كردیا كرتے تھے 503 یھی نھیں بلكہ ان كے گھروں میں جو كتابیں قرآن مجید، صحیح بخاری وصحیح مسلم اور حدیث وفقہ كی دوسری كتابیں هوتی تھیں ان سب كو باھر پھینك كر پامال كردیتے تھے، یہ واقعہ1217ھ میں رونما هوا، اس كے بعد ان لوگوں نے مكہ كا رخ كیا لیكن چونكہ حج كا زمانہ تھا اور اس موقع پر وھاں حملہ كرتے تو تمام حجاج مل كران سے جنگ كے لئے تیار هوجاتے اسی وجہ سے انھوں نے حج كا زمانہ گذر جانے تك صبر كیا، اور جب حجاج اپنے اپنے وطن لوٹ گئے تو انھوں نے مكہ پر حملہ شروع كردیا۔

نجدی علماء كے نام مكی علماء كا جواب

شاہ فضل رسول قادری (ہندی) متوفی1289ھ سیف الجبار نامی كتاب میں اس خط كو پیش كرتے ھیں جس كو نجدی علماء نے طائف میںقتل وغارت كے بعد مكی علماء كے نام لكھا ھے ،اور اس كے بعد مكی علماء كا جواب بھی نقل كیا، اور خود موصوف نے بھی بعض جگهوں پر فارسی زبان میں كچھ توضیحات دیں ھیں، مكہ كے علماء نجدیوں كے خط كا جواب دینے كے لئے نماز جمعہ كے بعد خانہ كعبہ كے دروازہ كے پاس كھڑے هوئے اور اس مسئلہ كے بارے میں گفتگو كی اس جلسہ كے صدر جناب احمد بن یونس باعلوی نے ان كی باتوں كو قلم بند كرنے كے لئے كھا، (چنانچہ وہ خط لكھا گیا)

نجدیوں كی باتیں اور مكی علماء كا جواب شاہ فضل قادری كی توضیحات كے ساتھ تقریباً 89 ستونوں (ھر صفحہ میں دو ستون) میں ذكر هوا ھے، یہ باتیں جو ھم ذكر كریں گے وہ نجدیوں كے خط كے باب اول (باب الشرك) اور باب دوم (باب البدعة) سے متعلق ھیں۔

اس خط كو لكھنے والے احمد بن یونس باعلوی خط كے آخری حصے میں لكھتے ھیں، كہ باب اول كے بارے میں ھمارا نظریہ تمام هوا، نماز عصر كا وقت قریب آگیا، اور نماز پڑھی جانے لگی اور علماء اپنی جگہ سے اٹھ كھڑے هوئے، شیخ عمر عبد الرسول اور عقیل بن یحيٰ علوی اور شیخ عبد الملك اور حسین مغربی اس خط كا املاء بول رھے تھے۔

اور جب علماء نماز سے فارغ هوئے تو دوسرے باب (یعنی باب البدعة) كے بارے میں گفتگو شروع هوئی كہ اچانك طائف كے ستمدیدہ او رمظلوم لوگ مسجد الحرام میں وارد هوئے اور لوگوں كو اپنی روداد سنائی اور ان كو یہ خبر بھی دی كہ نجدی مكہ میں بھی آئےں گے، اور یھاں آكر قتل وغارت كریں گے۔

چنانچہ اھل مكہ نے جب یہ خبر سنی تو بھت پریشان هونے لگے گویا كہ قیامت آنے والی ھے، علماء مسجد الحرام كے منبر كے پاس جمع هوگئے اور جناب ابوحامد منبر پر تشریف لے گئے اور نجدیوں كا خط اور اس كا جواب لوگوں كو پڑھ كر سنانے لگے۔

اور اس كے بعد علماء، قضات اور مفتیوں سے خطاب كیا آپ حضرات نے نجدیوں كی باتوں كو سنا اور ان كے عقائد كو جان لیا اب ان كے بارے میں آپ لوگوں كی كیا رائے ھے؟۔

اس وقت تمام علماء، قضات او راھل مكہ اور دوسرے اسلامی ملكوں سے آئے حاجی مفتیوں نے نجدیوں كے كفر كا فتویٰ دیا اور ساتھ ساتھ یہ بھی كھا كہ امیر مكہ پر ان سے مقابلہ كے لئے جلدی كرنا واجب ھے اور تمام مسلمانوں پر بھی ان كی حمایت اور مدد كرنا واجب ھے، اور ان كے مقابلہ میں شركت كرنا واجب ھے اور اگر كوئی شخص بغیر عذر خواھی كے جنگ سے منھ موڑے گا تو وہ شخص گناہكار ھے،اور ان لوگوں سے جنگ كرنے والا مجاہد ھے اور اسی طرح ان كے ھاتھوں سے قتل هو نے والا شخص شھید هوگا۔

علماء اور مفتیوں نے اس بات سے اتفاق كرتے هوئے مذكورہ فتوے پر اپنی اپنی مھر لگائی، اور نماز مغرب كے بعد شریف مكہ كے حضور میں پهونچے اور سب لوگوں نے مل كر یہ طے كرلیا كہ جنگ كے لئے تیار هوجائیں اور كل صبح كے وقت نجدیوں سے مقابلہ كرنے كے لئے حدود حرم سے خارج هوجائیں۔

لیكن شریف غالب مكہ میں نہ رہ سكے، اسی بنا پر اپنے بھائی عبد المعین كو مكہ میں اپنا جانشین بنایا اور خود جدّہ بندرگاہ نكل گئے، لیكن عبد المعین سعود سے مل بیٹھا اور ایك خط لكھ كر اس سے امان چاھی، اور اس نے اپنے خط میں یہ بھی لكھا كہ اھل مكہ آپ كی پیروی كرنے كے لئے حاضر ھیں، اور وہ خود بھی سعود كی طرف سے مكہ كا والی هونا پسند كرتا ھے۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 next