تاریخ آل سعود



قارئین كرام! جیسا كہ آپ نے ملاحظہ فرمایا اس واقعہ كی تفصیل ”سپھر“ صاحب نے1226ھ كے واقعات میں نقل كی ھے، لیكن ”جبرتی“ صاحب نے اس واقعہ كو1218ھ كے واقعات میں ذكر كیا ھے وہ لكھتے ھیں:

وھابیوں نے مكہ او رجدّہ كو خالی كردیاكیونكہ ان كو یہ اطلاع مل گئی تھی كہ ایرانیوں نے ان كے ملك پر حملہ كركے بعض علاقوں پر قبضہ كرلیا ھے۔

ممكن ھے كوئی یہ كھے كہ نجد پر ایرانیوں كے كئی بار حملے هوئے ھیں، جیسا كہ آپ حضرات نے ”آقائے سپھر“ كی تحریر میں دیكھا كہ انھوں نے ” صادق خان دولو“ كے بارے میں یہ كھا ھے كہ وہ عربوں سے جنگ كرنے كا تجربہ ركھتے تھے، لہٰذا اس بات كا احتمال دیا جاسكتا ھے كہ جبرتی صاحب نے آقائے سپھر كے ذكر شدہ حملہ كے علاوہ دوسرے حملہ كی طرف اشارہ كیا هو، بھر حال1227ھ میں نجد كی حكومت نے ایران كی حكومت سے صلح كی درخواست كی، اورظاھراً اسی كے بعد سے طرفین كے مابین كوئی اھم حادثہ پیش نھیں آیا۔

سعود كا انتقال

امیر سعود گیارہ جمادی الاول1229ھ میں مثانہ كی بیماری كی وجہ سے مرگیا، معلوم هونا چاہئے كہ سعود نے محمدبن عبد الوھاب سے دو سال درس پڑھا تھا اور علم تفسیر، فقہ اور حدیث میں مھارتحاصل كرلی تھی اور وہ بعض لوگوں كو درس بھی دیتا تھا۔

امیر عبد اللہ بن سعود اور عثمانیوں كے درمیان دوبارہ حملے

سعودكے مرنے كے بعد اس كے بیٹے عبد اللہ كی بیعت كے لئے عرب كے تمام علاقوں سے لوگ آتے تھے اور عبد اللہ كے ھاتھوں پر بیعت كررھے تھے ا ور اپنی اطاعت گذاری كا اظھار كررھے تھے، اسی اثنا میں محمد علی پاشا جو مكہ میں تھے، وھابیوں سے مقابلہ كے لئے ایك عظیم لشكرتیار كرلیا۔

طرفین میں كئی جنگیں هوئیں، جس كا نتیجہ یہ هوا كہ دونوں نے آپس میں صلح كرلی، لیكن چونكہ عثمانی سلطان اور محمد علی پاشا كا دلی ارادہ یہ تھا كہ وھابیوں كی حكومت كو نیست ونابود كردیا جائے ادھر نجد اور حجاز كے لوگوں نے مصر میں جاكر امیر عبد اللہ كی بدگوئیاں كرنا شروع كردی، (اس وقت مصر كے والی محمد علی پاشا تھے)، اسی وجہ سے محمد علی پاشا نے تركوں اور مصریوں اور اھل مغرب، شام اور عراق كے لوگوں پر مشتمل ایك عظیم لشكر آمادہ كیا اور چونكہ اس كا بیٹا طوسون1231ھ میں انتقال كرچكا تھا اس وجہ سے اس مرتبہ لشكر كی سرداری اپنے دوسرے بیٹے ابراھیم پاشا (یا ایك قول كے مطابق بیوی كے ساتھ آیا هوا دوسرے شوھر كا بیٹا ابراھیم پاشا) كے حوالہ كی، ابراھیم پاشا اس بھادر لشكر كے ساتھ مصر سے روانہ هوا، اور سب سے پھلے مدینہ منورہ كارخ كیا اور اس كو مع قرب وجوار كے اپنے قبضہ میں لے لیا، اور اس كے بعد ”آب حناكیہ“ كا رخ كیا اور وھاں پر قتل وغارت شروع كیا۔

ابراھیم پاشا كا اس علاقہ میں اس طرح رعب و دبدبہ تھا كہ ان میں سے بعض لوگ اس كی اطاعت كا اظھاركرنے لگے تھے، اور انھوں نے اس كے ساتھ مل كر جنگ كرنے كا بھی اعلان كیا، ابراھیم پاشانے 1232ھ كے شروع تك حناكیہ میں قیام كیا اور اس كے بعد نجد كے علاقہ ”رَجلہ“ پر حملہ كیا۔ لیكن اس كے بعد امیر عبد اللہ نے ایك عظیم لشكر تیار كیا، اور جن قبیلوں نے ابراھیم پاشا كی اطاعت قبول كرلی تھی ان كی نابودی كے لئے حجاز گیا لیكن جیسے ھی مذكورہ قبیلوں نے امیر عبد اللہ كو ایسا كرتے دیكھا تو حناكیہ میں جاكر ابراھیم پاشا كے یھاں پناہ لے لی۔

دونوں طرف میں لڑائی جھگڑے هوتے تھے تو ان میں اكثر نقصان امیر عبد اللہ كا هوتا تھا اس كی وجہ یہ تھی كہ ابراھیم پاشا كا لشكر تعداد كے لحاظ سے بھی اورتوپ اور دیگر اسلحہ وغیرہ كے لحاظ سے بھی امیر عبد اللہ كے لشكر سے طاقتور تھا، ابراھیم پاشانے آہستہ آہستہ ”رَسّ“ نامی علاقہ اور ”عنیزہ اور ”خبرا“ شھروں پر بھی قبضہ كرلیا، اور شھر ”شقراء“ كو بھی صلح كے ذریعہ اپنے قبضہ میں كرلیا تھا ۔

خلاصہ یہ كہ ابراھیم پاشا آگے بڑھتا رھا اور نجد وحجاز كے دوسرے علاقوں پر قبضہ كرتا رھا، اس كی پیشرفت اور ترقی قتل وغارت كے ساتھ هوتی تھی،آخر كارابراھیم پاشا نے امیر عبد اللہ كے دار السلطنت شھر ”درعیہ“ كو گھیر لیا، اور بھت سے حملے كرنے كے بعد اس شھر كو بھی اپنے قبضے میں لے لیا، اور امیر عبد اللہ كی بھت سی اھم شخصیتوں كو توپ كے سامنے كھڑا كركے ان پر توپ كے گولے چلا دئے، یہ سب دیكھ كر امیر عبد اللہ نے بھی اس كے سامنے ھتھیار ڈال دئے۔

اور جیسے ھی نجد فتح هونے كی یہ خبر مصر پهونچی تو خوشیاں منانے كی وجہ سے توپ كے تقریباً ایك ہزار گولے داغے گئے، او رسات دن تك مصر كے علاقوں میں چراغانی كی گئی۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 next