تاریخ آل سعود



چراغانی، شب زندہ داری، آتش بازی، توپ داغنا، میوزك اور دوسرے كھیل اور سرگرمی سات شب وروز تك جدید اور قدیم مصر اور مصر كے دوسرے علاقوں میں جاری رھے۔

ابراھیم پاشا اس سفر سے واپسی پر خود كو بھت بڑا سمجھنے لگا تھا اور اتنے غرور میں رھتا تھا جس كا كوئی تصور نھیں كیا جاسكتا تھا، اس كا غرور اس وقت ظاھر هوا كہ جب اھم شخصیات اس كی خدمت میں سلام او رتہنیت كے لئے حاضر هوئےں تو یہ جناب اپنی جگہ سے كھڑے تك نہ هوئے، اور سلام كا جواب تك نہ دیا یھاں تك كہ اشارہ تك بھی نہ كیابلكہ اسی حال میں بیٹھا هوا مسخرہ كرتا رھا، لہٰذا وہ لوگ وھاں سے ناراض هوكر واپس هوگئے۔

وھابی اسیروں كو فروخت كرنا

جناب جبرتی صاحب كھتے ھیں كہ محرم1235ھ میں مغرب اور حجاز كے كچھ سپاھی مصر میں وارد هوئے جن كے ساتھ وھابی اسیر بھی تھے، جن میں عورتیں، لڑكیاں او رلڑكے بھی تھے، یہ سپاھی ان اسیروںكو جو شخص بھی خریدنا چاھے اس كو فروخت كردیتے تھے، جبكہ یہ اسیر مسلمان بھی تھے اور آزاد بھی۔

اور شاید اس كی وجہ یہ هو كہ وھابیوں كے مخالف ان كو خارجی سمجھ رھے تھے دوسرا احتمال جس كو جبرتی نے بھی دیا ھے كہ عثمانی سپاھیوں كا كوئی دین و مذھب نہ تھا، ان كے ساتھ شراب كے ظروف بھی موجودهوتے تھے كبھی ان كے لشكر سے اذان كی آواز سنائی نھیں دیتی تھی، نہ ھی ان كو نماز پڑھتے دیكھا گیا،ان كے ذہن میں بھی نھیں تھا كہ ھم دین اسلام كے لئے جنگ كررھے ھیں، جب عثمانی سپاھیوں كے قتل شدہ لاشے ملتے تھے تو ان میں سے بھت سے لوگ ختنہ شدہ بھی نھیں تھے۔

مذكورہ باتوں كے پیش نظر عثمانی سپاھی اپنی ان صفات كے باعث وھابیوں میں سے جس كو اسیر بناتے تھے اس زمانہ كے رواج كے تحت اپنے غلاموں كی طرح فروخت كردیتے تھے اور اسیروں كے مذھب و دین كے بارے میں كوئی فكر نھیں كرتے تھے۔

لیكن چونكہ یہ اسیر حجازی او رمغربی سپاھیوں كے ھاتھوں میں هوتے تھے شاید پھلا والا احتمال حقیقت سے زیادہ نزدیك هو، اسی طرح دوسرے ایسے مواقع بھی آئے ھیں جن میں عثمانی سپاھیوں نے وھابی عورتوں اور بچوں كی خوارج هونے كے لحاظ سے خرید وفروخت كی ھے۔

آل سعود كی حكومت كا دوبارہ تشكیل پانا

اسلامبول میں امیر عبد اللہ كو پھانسی لگنے اور آل سعود او رآل شیخ محمد بن عبد الوھاب كے مصر میں جلا وطن هونے كے بعد گمان یہ كیا جاتا تھا كہ عثمانی بادشاہ، محمد علی پاشا اور ابراھیم پاشا نے وھابیوں اور خاندان آل سعود كی حكومت تباہ كر كے اپنی حكومت قائم كرلےں، لیكن كوئی بس نہ چلا اور دونوں خاندان كے بعض افراد بھاگ نكلے اور بعد میں حكومت آل سعود كو تشكیل دیا۔

ان بھاگنے والوں میں سے ایك امیر تركی بن امیر عبد اللہ بن محمد بن سعود تھا، دوسرا اس كا بھائی زید تھا اسی طرح علی بن محمد بن عبد الوھاب تھا یہ لوگ پھلے قطر اور عُمّان گئے، معلوم هونا چاہئے كہ امیر تركی وھی شخص ھے جس نے بعد میں سعودی حكومت كو دوبارہ زندہ كیا ھے۔

1234ھ كے آخر میں جب ابراھیم پاشا كے حكم سے درعیہ شھر كو نیست ونابود كردیا گیا اس وقت محمد بن مُشارِی بن مَعمر، سعود بن عبد العزیز كا بھانجا درعیہ سے ”عُیَنْیَہ “ بھاگ نكلا تھااور (جب ابراھیم پاشا وھاںسے چلاگیا) تو دوبارہ درعیہ واپس آگیا اور چونكہ آل سعود سے رشتہ داری تھی،لہٰذا اس نے حكومت نجد كو اپنے ھاتھوں میں لےنے كی ٹھان لی۔

اس نے درعیہ شھر كو دوبارہ بنوانا شروع كیا اور بھت سا جنگی ساز وسامان تیار كیا، اور بھت سارا مال اكٹھّا كیا اور آل سعود كے بادشاهوں كی طرح لوگوں كو توحید كی دعوت دینا شروع كردیا، قرب



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 next