دنیا کو حقیر جاننا اور آخرت کو اہمیت کی نگاہ سے دیکھنا



          جو Ú©Ú†Ú¾ تمھارے پاس ہے وہ سب خرچ ہوجائے گا اور جو Ú©Ú†Ú¾ اللہ Ú©Û’ پاس ہے وہی باقی رہنے والا ہے۔

          انسان تصور کرتا ہے کہ دنیا Ú©ÛŒ نعمتیں قیمتی ہیں اورجو ان سے بیشتر استفادہ کرتاہے وہ زیادہ قدر Ùˆ منزلت رکھتا ہے۔ قرآن مجید اس غلط تصور Ú©Û’ بارے میں فرماتا ہے:

<فَاَمَّا الِْانْسَانُ اِذَامَاا بْتَلَ-Ù°-ہُ رَبُّہُ فَاَکْرَمَہُ وَنَعَّمَہُ فَیَقُولُ رَبِّی اَکْرَمَنِ وَاَمَّا اِذَامَا ابْتَل-Ù°ÙŽ-ہُ فَقَدَرَعَلَیْہِ رِزْقَہُ فَیَقُولُ رَبِّی اَھَ-Ù°-نَنِ>      (فجر/ Û±ÛµÙˆÛ±Û¶)

          ”لیکن انسان کا حال یہ ہے کہ جب خدا Ù†Û’ اس Ú©Ùˆ اس طرح آزمایا کہ اسے عزت اور نعمت دی تو کہنے لگا میرے رب Ù†Û’ مجھے باعزت بنایا ہے،اور جب آزمائش Ú©Û’ لئے روزی Ú©Ùˆ تنگ کر دیا تو کہنے لگا میرے پرور دگار Ù†Û’ میری توہین Ú©ÛŒ ہے۔“

          حقیقت میں دنیا امتحان کا وسیلہ ہے اور انسان، خواہ نعمت اور مال دنیا سے سرفراز ہو یا محروم ہو، خدا Ú©ÛŒ طرف سے آزمائش ہے نہ دنیا سے بہر مند ہونا کرامت وسر بلندی Ú©ÛŒ علامت ہے نہ ہی فقرو تنگدستی ذلت وخواری Ú©ÛŒ نشانی ہے پس چونکہ دنیا خدا Ú©Û’ نزدیک ناچیز ہے، اس لئے کافر Ú©Ùˆ اس سے محروم نہیں کرتا، اس Ú©Û’ برعکس بہشت اور اس Ú©ÛŒ نعمتیں خدا Ú©Û’ نزدیک قدر Ùˆ قیمت رکھتیں ہیں، اس لئے ان سے کافر Ú©Ùˆ محروم کرتا ہے:

<وَنَادیٰ اٴَصْحَابُ النَّارِ اَصْحَابَ الْجَنَّةِ اَنْ اَفِیضُوا عَلَیْنَا مِنَ الْمَآءِ اَوْمِمَّا رَزَقَکُمُ اللهُ قَالُوا اِنَّ اللهَ حَرَّمَھُمَا عَلَی الْکَافِرِینَ>          (اعراف/ ÛµÛ°)

          اور جہنم والے جنت والوں سے پکار کر کہیں Ú¯Û’ کہ ذرا ٹھنڈا پانی یا خدا Ù†Û’ جو رزق تمہیں دیا ہے اس میں سے ہمیں بھی پہنچاؤ تو وہ لوگ جواب دیں Ú¯Û’ کہ ان چیزوں Ú©Ùˆ اللہ Ù†Û’ کافروں پر حرام کر دیا ہے۔

          بہشت اور اس Ú©ÛŒ نعتوں Ú©ÛŒ ایسی قدرو منزلت ہے کہ کافر ان Ú©ÛŒ لیاقت نہیں رکھتے اور حقیقت میں یہ بنیادی قدرو منزلت اولیائے الہٰی سے مخصوص ہے۔ اس Ú©Û’ برعکس دنیا Ú©ÛŒ خدا Ú©Û’ نزدیک کوئی قیمت نہیں ہے، اسی لئے کافر بھی اس سے استفادہ کرتے ہیں اور ممکن ہے وہ دوسروں سے زیادہ اس سے استفادہ کریں اور دنیوی وسائل سے بہرہ مند ہوجائیں، البتہ جتنا وہ اس سے زیادہ استفادہ کریتے ہیں اتنا ہی زیادہ ان Ú©Û’ عذاب میں اضافہ ہوتا ہے، کیونکہ کفار اسے راہ حق سے انحراف اور بغاوت Ú©Û’ لئے استفادہ کرتے ہیں۔

          دلچسپ بات یہ ہے کہ پیغمبر اسلام دنیا Ú©Û’ حقیر اور ناچیز ہونے Ú©Û’ بارے میں قسم کھاتے ہیں۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مطلب Ú©Û’ بارے میں باور کرنا عام انسانوں Ú©Û’ لئے مشکل ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے یہ دنیا اتنی وسعت، منابع Ùˆ امکانات اور انسان Ú©Û’ استفادہ Ú©Û’ لئے فراوان لذتوں سے مالا مال ہونے Ú©Û’ باوجود خدا Ú©Û’ نزدیک ایک Ù…Ú©Ú¾ÛŒ Ú©Û’ پر Ú©Û’ برابر قیمت اور اہمیت نہیں رکھتی ہے! اس سلسلہ میں اس Ú©Û’ علاوہ Ú©Ú†Ú¾ نہیں کہ حقائق Ú©Û’ بارے میں ہماری معلومات محدود اور ہماری بصیرت Ú©Ù… ہے۔ ہم Ù†Û’ ماد یات Ú©ÛŒ طرف توجہ Ú©Ùˆ اپنی زندگی Ú©ÛŒ بنیاد قرار دیا ہے اورد نیا Ú©Ùˆ اصلی ہدف سمجھتے ہیں۔ ہم اس سے غافل ہیں کہ خدا Ú©Û’ نزدیک اور قرآن Ú©Û’ نظریہ Ú©Û’ مطابق دنیا ناچیز ہے اور صرف ایک وسیلہ Ú©ÛŒ حد تک اعتبار رکھتی ہے۔ حقیقی قدر Ùˆ قیمت ان نیکیوں اور خوبیوں Ú©ÛŒ ہے جو انسان Ú©Û’ لئے سعاد تمندی اور رضوان الہٰی کا سبب بنتی ہیں۔ حقیقی قدر Ùˆ قیمت اس چیز میں ہے جو انسان Ú©Û’ لئے قرب الہٰی حاصل کرنے کا سبب بنتی ہے اور یہ وہی مقصد ہے جس Ú©Û’ لئے انسان پیدا کیا گیا ہے اور اس سے کہا گیا ہے کہ اس مقصد تک پہنچنے Ú©Û’ لئے تمام امکانات اور وسائل سے استفادہ کرے۔

         



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 next