حضرت امام حسین علیہ السلام کی حیات مبارکه



لیکن آپ کا یہ فرمان:”وانا من حسین “”اور میں حسین سے ھوں “ اس کا مطلب یہ ھے کہ امام حسین علیہ السلام مستقبل میں اسلام کی راہ میں قربا نی دے کر رہتی تاریخ تک اسلام کو زندئہ جا وید کریں گے ، لہٰذا حقیقت میں نبی حسین(ع)سے ھیں کیونکہ امام حسین(ع) نے ھی آپ کے دین کو دوبارہ جلا بخشی ، ان طاغوتی حکومتوں کے چنگل سے رھا ئی دلائی جو دین کو مٹا نا اور زند گی کو جا ھلیت کے دور کی طرف پلٹانا چا ہتے تھے ، امام حسین(ع)نے قر بانی دے کر امویوں کی بنیادوں کو اکھاڑ پھینکا اور مسلمانوں کو ان کے ظلم و ستم سے آزاد کرایا۔

۴۔سلمان فا رسی سے روایت ھے :جب میں نبی کی خدمت میں حا ضر ھوا تو امام حسین(ع) آپ کی ران پر بیٹھے ھوئے تھے اور نبی آپ کے رخسار پر منھ ملتے ھوئے فر ما رھے تھے :

”انت سید ُبْنُ سَیَّد،انت امام بن امام،وَاَخُوْااِمَامٍ،وَاَبُوالاَئِمَةِ،وَاَنْتَ حُجَّةُ اللّٰہِ وَابْنُ حُجَّتِہِ،وَاَبُوْحُجَجٍ تِسْعَةٍ مِنْ صُلْبِکَ،تَاسِعُھُمْ قَائِمُھُمْ“۔[4]

”آپ سید بن سید،امام بن امام ،امام کے بھا ئی،ائمہ کے باپ ،آپ اللہ کی حجت اور اس کی حجت کے فرزند،اور اپنے صلب سے نو حجتوں کے باپ ھیں جن کا نواں قا ئم ھوگا “۔

۵۔ابن عباس سے مروی ھے :رسول اسلام اپنے کا ندھے پر حسین(ع) کو بٹھا ئے لئے جا رھے تھے تو ایک شخص نے کھا : ”نِعم المرکب رکبت یاغلام ،فاجا بہ الرسول :”ونعم الراکب ھُوَ“۔[5]

”کتنا اچھا مرکب (سواری )ھے جو اس بچہ کو اٹھا ئے ھوئے ھے، رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے جواب میں فرمایا:”یہ سوار بہت اچھا ھے “۔

۶۔رسول اللہ کا فرمان ھے :”ھذا(یعنی :الحسین(ع) )امام بن امام ابوائمةٍ تسعةٍ“۔[6]

”یہ یعنی امام حسین(ع) امام بن امام اور نو اماموں کے باپ ھیں“۔

۷۔یزید بن ابو زیاد سے روایت ھے :نبی اکر م(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) عا ئشہ کے گھر سے نکل کر حضرت فاطمہ زھرا(ع) کے بیت الشرف کی طرف سے گذرے تو آپ کے کانوں میں امام حسین(ع) کے گریہ کرنے کی آواز آ ئی، آپ بے چین ھوگئے اور جناب فاطمہ(ع) سے فر مایا:”اَلَمْ تَعْلَمِیْ اَنَّ بُکَائَہُ یُوْذِیْنِیْ؟“۔[7]

”کیا تمھیں نھیں معلوم حسین کے رونے سے مجھ کو تکلیف ھو تی ھے “۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 next