حضرت امام حسین علیہ السلام کی حیات مبارکه



مکہ معظمہ میں سیاسی اجلاس

امام حسین(ع) نے مکہ میں ایک سیاسی اور عمو می اجلاس منعقد کیا جس میں حج کے زمانہ میں آئے ھوئے تمام مھا جرین و انصار وغیرہ اور کثیرتعدادنے شرکت کی ،امام حسین(ع) نے ان کے درمیان کھڑے ھوکر خطبہ دیا ، سرکش و باغی معاویہ کے زمانہ میں عترت رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) پر ڈھا ئے جانے والے مصائب و ظلم و ستم کے سلسلہ میں گفتگو فر ما ئی آپ(ع) کے خطبہ کے چند فقرے یہ ھیں :

”اس سرکش (معاویہ ) نے ھمارے اور ھمارے شیعوں کے ساتھ وہ کام انجام دئے جس کو تم نے دیکھا ،جس سے تم آگاہ ھو اور شاھد ھو ،اب میں تم سے ایک چیز کے متعلق سوال کر نا چا ہتا ھوں ، اگر میں نے سچ بات کھی تو میری تصدیق کرنا اور اگر جھوٹ کھا تو میری تکذیب کرنا ،میری بات سنو ، میرا قول لکھو ،پھر جب تم اپنے شھروں اور قبیلوں میں جاؤ تو لوگوں میں سے جو ایمان لائے اور اس پر اعتماد کرے تو تم اس کو ھمارے حق کے سلسلہ میں جو کچھ جانتے ھواس سے آگاہ کرو اور اس کی طرف دعوت دومیں اس بات سے خوف کھاتا ھوں کہ اس امر کی تم کو تعلیم دی جائے اور یہ امر مغلوب ھو کر رہ جا ئے اور خدا وند عالم اپنے نور کو کا مل کر نے والا ھے چا ھے یہ بات کفار کو کتنی ھی نا گوار کیوں نہ ھو “۔

اجلاس کے آخر میں امام(ع) نے اھل بیت(ع)کے فضائل ذکر کئے جبکہ معاویہ نے اُن پر پردہ ڈالنا چاھا،اسلام میں منعقد ھونے والا یہ پھلا سیمینار تھا ۔

آپ کا یزید کی ولیعھدی کی مذمت کرنا

معاویہ نے یزید کو مسلمانوں کا خلیفہ معین کرنے کی بہت کو شش کی ،بادشاہت کو اپنی ذریت و نسل میں قرار دینے کے تمام امکانات فراھم کئے ،امام حسین(ع) نے اس کی سختی سے مخالفت کی اور اس کا انکار کیا چونکہ یزید میں مسلمانوں کا خلیفہ بننے کی ایک بھی صفت نھیں تھی اور امام حسین(ع)نے اس کے صفات یوں بیان فرمائے : وہ شرابی شکارچی،شیطان کا مطیع و فرماں بردار ،رحمن کی طاعت نہ کرنے والا ،فساد برپا کرنے والا،حدود الٰھی کو معطل کرنے والا ، مال غنیمت میں ذاتی طور پر تصرف کرنے والا حلال خدا کو حرام،اور حرام خدا کو حلال کرنے والا ھے [44]معاویہ نے امام حسین(ع) کو ھر طریقہ سے اس کے بیٹے یزید کی بیعت کرنے کےلئے قانع کر نا چاھا ،اس کے علاوہ اس کے پاس کو ئی اور چارہ نھیں تھا ۔

معاویہ کی ھلاکت

جب باغی معاویہ ھلاک ھو ا تو حاکم مدینہ ولید نے یزید کی بیعت لینے کےلئے امام حسین(ع) کو بلا بھیجا ، امام(ع) نے اس کا انکار کیا اور اس سے فر مایا:”ھم اھل بیت نبوت ،معدن رسالت اور مختلف الملائکہ ھیں،ھم ھی سے اللہ نے آغاز کیا اور ھم ھی پر اختتام ھوگا اور یزید فاسق ، شرابی ،نفس محترم کا قتل کرنے والا،متجاھر بالفسق (کھلم کھلا گناہ کرنے والا)ھے اور مجھ جیسا اس جیسے کی بیعت نھیں کرسکتا “۔[45]

جس طرح خاندان نبوت کے تمام افراد نے اس کی بیعت کرنے سے انکار کر دیا اسی طرح امام حسین(ع) نے بھی اپنے بزرگوں کی اتباع کرتے ھوئے یزید کی بیعت کرنے سے انکار فرمادیا ۔

حضرت امام حسین(ع) کا انقلاب

امام حسین(ع) نے مسلمانوں کی کرامت و شرف کو پلٹانے ،ان کو امویوں کے ظلم و ستم سے نجات دینے کےلئے یزید کے خلاف ایک بہت بڑا انقلاب برپا کیا ،آپ(ع)نے اپنے اغراض و مقاصد کا اعلان کرتے ھوئے فرمایا:” انی لم اخرج۔۔۔“ ”میں سرکشی ،طغیان ،ظلم اور فساد کےلئے نھیں نکلا میں اپنے نانا کی امت میں اصلاح کےلئے نکلا ھوں ،میں امر بالمعروف اور نھی عن المنکرکرنا چا ہتا ھوں میں اپنے نانا اور بابا کی روش پر چلنا چا ہتا ھوں “۔

امام حسین(ع) نے اپنا انقلاب اس لئے جاری رکھا تاکہ آپ ملکوں میں اصلاحی اقدامات کی بنیاد رکھیں ،لوگوں کے مابین معاشرہ میں حق کا بول بالا ھو ،اور وہ خوفناک منفی پھلو ختم ھو جا ئیں جن کو اموی حکام نے اسلامی حیات میں نافذ کر رکھا تھا ۔

جب امام حسین(ع) نے حجاز کو چھوڑ کر عراق جانے کا قصد کیا تو لوگوں کو جمع کرنے کا حکم دیا، بیت اللہ الحرام میں خلق کثیر جمع ھو گئی ،آپ(ع) نے ان کے درمیان ایک جاودانہ تاریخی خطبہ ارشاد فرمایاجس کے چند جملے یہ ھیں :”الحمد للّٰہ،وماشَاءَ اللّٰہ۔۔۔“ ”تمام تعریفیں خدا کے لئے ھیں ،ھر چیز مشیت الٰھی کے مطابق ھے خدا کی مرضی کے بغیر کو ئی قوت نھیں ،خدا کا درود و سلام اپنے نبی پر ، لوگوں کے لئے موت اسی طرح مقدر ھے جس طرح جوان عورت کے گلے میں ھار ھمیشہ رہتا ھے ،مجھے اپنے آباء واجداد سے ملنے کا اسی طرح شوق ھے جس طرح یعقوب ،یوسف(ع) سے ملنے کےلئے بے چین تھے ، مجھے راہِ خدا میں جان دینے کا اختیار دیدیا گیا ھے اور میں ایسا ھی کروںگا ،میں دیکھ رھاھوں کہ میدان کربلا میں میرا بدن پاش پاس کردیا جا ئے گا ،اور میری لاش کی بے حرمتی کی جا ئے گی ،میں اس فیصلہ پر راضی ھوں ،خدا کی خوشنودی ھم اھل بیت(ع)کی خو شنودی ھے، ھم خدا کے امتحان پر صبر کریں گے خدا ھم کو صابرین کا اجر عطا فرمائے گا ،رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے آپ کے بدن کا ٹکڑا جدا نھیں ھو سکتا ،بروز قیامت آپ کے بدن کے ٹکڑے اکٹھے کر دئے جا ئیں گے جن کی بنا پر آپ خوش ھوں گے اور اُ ن کے ذریعہ آپ کا وعدہ پورا ھوگا ،لہٰذا جو ھمارے ساتھ اپنی جان کی بازی لگانے کے لئے تیار ھو اور خدا سے ملاقات کےلئے آمادہ ھو وہ ھمارے ساتھ چلنے کے لئے تیار رھے کہ میں کل صبح روانہ ھوجاؤں گا “۔

ھم نے اس سے فصیح و بلیغ خطبہ نھیں دیکھا ،امام(ع) نے اپنے شھادت کے ارادہ کا اظھار فرمایا،اللہ کی راہ میںزند گی کو کوئی اھمیت نھیں دی،موت کا استقبال کیا ،مو ت کو انسان کی زینت کےلئے اس کے گلے کے ھار سے زینت کے مانند قراردیا جو ھار لڑکیوں کی گردن کی زینت ھوتا ھے ،زمین کے اس جگہ کا تعارف کرایا جھاں پرآپ(ع) کا پاک و پاکیزہ خون بھے گا ،یہ جگہ نواویس اور کربلا کے درمیان ھے اس مقا م پر تلواریں اور نیزے آپ(ع) کے جسم طاھر پر لگیں گے، ھم اس خطبہ کی تحلیل اور اس کے کچھ گوشوں کا تذکرہ کتاب ” حیاة الامام الحسین “میں کرچکے ھیں۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 next