حضرت امام حسین علیہ السلام کی حیات مبارکه



امام(ع) نے اپنا خون اپنی ریش مبارک اور چھرے پر ملا حالانکہ آپ(ع) کی ھیبت انبیاء کی ھیبت کی حکایت کر رھی تھی اور آپ فر مارھے تھے :ھکذااکون حتی القی اللّٰہ وجدي رسول اللّٰہ واَنا مخضبُ بدمي ۔۔۔“۔[61]”میں اسی طرح اپنے خون سے رنگی ھوئی ریش مبارک کے ساتھ اللہ اور اپنے جد رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے ملاقات کروں گا“

۴۔حصین بن نمیر نے ایک تیر مارا جو آپ(ع) کے منھ پر لگا،آپ(ع) نے زخم کے نیچے اپنا دست مبارک کیا جب وہ خون سے بھر گیا تو آپ(ع) نے آسمان کی طرف بلند کیا اور مجرموں کے متعلق پروردگار عالم سے یوں عرض کیا:”اللّھم احصھم عدداًواقتُلھم بدداً،ولا تذرعلی الارض منھم احداً“۔[62]۔

آپ(ع) پرتیروں کی اتنی بارش ھوئی کہ آپ(ع) کا بدن ٹکڑے ٹکڑے ھوگیا ،جسم سے خون بھا اورآپ پر پیاس کا غلبہ ھوا تو آپ(ع) زمین پر بیٹھ گئے حالانکہ آپ(ع) کی گردن میں سخت درد ھورھاتھا ، (آپ(ع) اسی حالت میں بیٹھے ھوئے تھے کہ )خبیث مالک بن نسیر نے آپ(ع) پر حملہ کر دیا اس نے آپ پر سب و شتم کیا، تلوار بلند کی آپ(ع) کے سر پر خون سے بھری ایک بلند ٹوپی تھی امام(ع) نے اس کو ظالم کی طرف پھینکتے ھوئے اس کے لئے یہ کلمات ادا کئے :”لااَکلتَ بیمینک ولاشربتَ،وحشرک اللّٰہ مع الظالمین “۔

آپ نے لمبی ٹوپی پھینک کر ٹوپی پر عمامہ باندھاتو ظالم نے دوڑ کر لمبی ٹوپی اٹھائی تو اس کے ھاتھ شل ھو گئے ۔[63]

امام کی اللہ سے مناجات

ان آخری لمحوں میں امام(ع) نے خدا وند عالم سے لو لگا ئی ،اس سے مناجات کی ، خدا کی طرف متوجہ قلب سے تضرع کیا اور تمام مصائب و آلام کی پروردگار عالم سے یوں شکایت فر ما ئی :

”صبراًعلیٰ قضائکَ لاالٰہ سواکَ،یاغیاث المستغیثین،مالي ربُّ سواکَ ولامعبودُغیرُکَ ،صبراًعلیٰ حُکمِکَ،یاغیاثَ مَنْ لاغیاثَ لَہُ، یادائما لانفادلہ، یامحیيَ الموتیٰ،یاقائماعلیٰ کلِّ نفسٍ،احکُم بیني وبینھم ْ وانتَ خیر ُالحاکمِیْنَ “۔[64]

”پروردگارا !میںتیرے فیصلہ پر صبر کرتا ھوں تیرے سوا کو ئی خدا نھیں ھے ،اے فریادیوں کے فریاد رس،تیرے علاوہ میرا کو ئی پر وردگار نھیں اور تیرے سوا میرا کو ئی معبود نھیں ،میں تیرے حکم پر صبر کرتا ھوں، اے فریادرس! تیرے علاوہ کو ئی فریاد رس نھیں ھے ،اے ھمیشہ رھنے والے تجھے فنا نھیں ھے، اے مردوں کو زندہ کرنے والے ،اے ھر نفس کو باقی رکھنے والے ،میرے اور ان کے درمیان فیصلہ کراور تو سب سے اچھا فیصلہ کر نے والا ھے “۔

یہ دعا اس ایمان کا نتیجہ ھے جو امام(ع) کے تمام ذاتیات کے ساتھ گھل مل گا تھا یہ ایمان آپ کی ذات کا اھم عنصرتھا ۔۔۔آپ(ع) اللہ سے لو لگائے ر ھے ،اس کی قضا و قدر (فیصلے )پر راضی رھے ،تمام مشکلات کو خدا کی خاطر برداشت کیا،اس گھرے ایمان کی بناپرآپ(ع) تمام مشکلات کو بھول گئے ۔

ڈاکٹر شیخ احمد وا ئلی اس سلسلہ میں یوں کہتے ھیں :

یا ابا الطف وازدھیٰ  بالضحایا



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 next