حضرت امام حسین علیہ السلام کی حیات مبارکه



اور سید حیدر کا یہ شعر کتنا اچھا ھے :

دَکُّوا رُبَاھاً ثُمَّ قَالُوا لَھَا

 

وَقَدْ جَثَوا۔نَحْنُ مَکَانَ الرُّبَا!

”انھوں نے ٹیلوں کو ریزہ ریزہ کردیا ھے پھر جب اس پر بیٹھ گئے تو کھنے لگے ھم ٹیلے ھیں “۔

امام حسین(ع)نے فطرت بشری کی نادر استقامت و پا ئیداری کے ساتھ چیلنج پیش کرتے ھوئے موت کی کو ئی پروا نہ کی اور جب آپ(ع) پر دشمنوں کے تیروں کی بارش ھو رھی تھی تو اپنے اصحاب سے فرمایا:”قُوموُارحِمَکُم اللّٰہُ الیٰ المَوْتِ الَّذِیْ لَابُدَّ مِنْہُ فَاِنَّ ھٰذِہِ السّھَامَ رُسُلُ الْقَوْمِ اِلَیْکُمْ۔۔۔“۔

”تم پر خدا کی رحمت ھو اس مو ت کی جانب آگے بڑھوجس سے راہ فرار نھیں کیونکہ یہ تیر دشمنوں کی جانب سے تمھارے لئے موت کا پیغام ھیں “۔

حضرت امام حسین(ع) کااپنے اصحاب کو موت کی دعوت دینا گویا لذیذ چیز کی دعوت دینا تھا ،جس کی لذت آپ(ع) کے نزدیک حق تھی ،چونکہ آپ(ع) باطل کو نیست و نابود کرکے ان کے سامنے پروردگار کی دلیل پیش کرنا چاہتے تھے جو ان کی تخلیق کرنے والاھے ۔[30]

۴۔صراحت

حضرت امام حسین(ع)کی ایک صفت کلام میں صاف گوئی سے کام لینا تھی ،سلوک میں صراحت سے کام لینا ، اپنی پوری زند گی کے کسی لمحہ میں بھی نہ کسی کے سامنے جھکے اور نہ ھی کسی کو دھوکہ دیا،نہ سست راستہ اختیار کیا،آپ(ع) نے ھمیشہ ایسا واضح راستہ اختیار فر مایاجو آپ(ع) کے زندہ ضمیر کے ساتھ منسلک تھااور خود کو ان تمام چیزوں سے دور رکھا جن کا آپ(ع) کے دین اور خلق میں کوئی مقام نھیں تھا ،یہ آپ(ع) کے واضح راستہ کا ھی اثر تھا کہ یثرب کے حاکم یزید نے آپ کو رات کی تا ریکی میں بلایا،آپ(ع) کو معاویہ کے ھلاک ھونے کی خبر دی اور آپ سے رات کے گُھپ اندھیرے میںیزید کے لئے بیعت طلب کی تو آپ(ع) نے یہ فرماتے ھوئے انکار کردیا :”اے امیر ،ھم اھل بیت نبوت ھیں ، ھم معدن رسالت ھیں ،اللہ نے ھم ھی سے دنیا کا آغاز کیا اور ھم پر ھی اس کا خاتمہ ھوگا،یزید فاسق و فاجر ھے ،شارب الخمر ھے ،نفس محترم کا قاتل ھے وہ متجا ھر بالفسق ھے اور میرا جیسا اس جیسے کی بیعت نھیں کر سکتا “۔

ان کلمات Ú©Û’ ذریعہ آپ Ú©ÛŒ صاف گوئی ،بلندی  مقام اور حق Ú©ÛŒ راہ میں ٹکرانے Ú©ÛŒ طاقت کشف Ú¾Ùˆ ئی Û”



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 next