حضرت امام حسین علیہ السلام کی حیات مبارکه



صفی الدین کا کھنا ھے :امام حسین نے جو مصائب و آلام بر داشت کئے ان کوسننے کی دنیا کے کسی مسلمان میں طاقت نھیں ھے اور ایسا ممکن نھیں ھے کہ ان کو سن کراس کا دل پگھل نہ جائے ۔[47]

امام کا استغاثہ

امتحان دینے والے امام حسین(ع) Ù†Û’ اپنے اھل بیت(ع) اور اصحاب پر رنج Ùˆ غم اور حسرت بھری نگاہ ڈالی، تو آپ(ع) Ù†Û’ مشاھدہ کیا کہ جس طرح حلال گوشت جانور ذبح ھونے Ú©Û’ بعد اپنے ھاتھ پیر زمین مارتا Ú¾Û’ وہ سب آفتاب Ú©ÛŒ شدت تمازت سے کربلا Ú©ÛŒ گرم ریت پر بلک رھے ھیں،آپ Ù†Û’ اپنے اھل Ùˆ عیال Ú©Ùˆ بلند آواز سے گریہ کرتے دیکھا تو آپ(ع) Ù†Û’ حرم رسول(صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ Ùˆ سلم) کا حامی Ùˆ مدد گار مل جانے Ú©Û’ لئے یوں فریاد کرنا شروع Ú©ÛŒ :”ھل من ذاب یذب عن حرم رسولُ اللّٰہ(صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ Ùˆ سلم) ØŸÚ¾Ù„ من موحدٍ  یخاف اللّٰہ فینا؟ھل من مغیثٍ یرجوااللّٰہ فی اغاثتنا؟“۔[48]

اس استغاثہ و فریاد کا آپ(ع) پر ظلم و ستم کرنے اور گناھوں میں غرق ھونے والوں پر کو ئی اثر نھیں ھوا۔۔۔جب امام زین العابدین(ع) نے اپنے والد بزرگوار کی آواز استغاثہ سنی تو آپ اپنے بستر سے اٹھ کرشدت مرض کی وجہ سے عصا پر ٹیک لگاکر کھڑے ھوگئے ،امام حسین(ع) نے ان کو دیکھا اور اپنی بھن سیدہ ام کلثوم سے بلند آواز میں کھا :”ان کو روکو، کھیں زمین نسل آل محمد سے خالی نہ ھو جائے “،اور جلدی سے آگے بڑھ کر امام کو ان کے بستر پر لٹادیا ۔[49]

 Ø´ÛŒØ± خوار Ú©ÛŒ شھادت

ابو عبد اللہ کے صبر جیسا کو ن سا صبر ھو سکتا ھے ؟آپ(ع) نے یہ تمام مصائب کیسے برداشت کئے؟ آپ(ع) کے صبرسے کا ئنات عاجز ھے ،آپ(ع) کے صبر سے پھاڑکانپ گئے، آپ(ع) کے نزدیک سب سے زیادہ دردناک مصیبت آپ(ع) کے فرزند عبد اللہ شیر خوار کی مصیبت تھی جو بدر منیر کے مانند تھا،آپ(ع) نے اس کو آغوش میں لیا بہت زیادہ پیار کیا آخری مرتبہ الوداع کیا ،اس پر بیھوشی طاری تھی ،آنکھیں نیچے دھنس گئی تھیں، ھونٹ پیاس کی وجہ سے خشک ھو گئے تھے ،آپ نے اس کوھاتھوںپرلیا اور آفتاب کی تمازت سے بچانے کےلئے اس پرعبا کا دامن اڑھاکر قوم کے سامنے لے گئے، شاید وہ رحم کھا کر اس کوایک گھونٹ پانی پلا دیں،آپ نے ان سے بچہ کے لئے پا نی طلب کیا،ان مسخ شدہ لوگوں کے دل پر کو ئی اثر نھیں ھوا،باغی لعین حرملہ بن کاھل نے چلہ کمان میں تیر جوڑا،اس نے ھنستے ھوئے اپنے لعین دوستوں کے سامنے فخر کرتے ھوئے کھا :اس کو پکڑو ابھی پانی پلاتا ھوں ۔

(اے خدا !)اس نے بچہ کی گردن پر تیر مارا جیسے ھی بچہ کی گردن پر تیر لگا تو اس کے دونوں ھاتھ قماط (نو زائیدہ بچہ کے لپیٹنے کا کپڑا)سے باھر نکل گئے ، بچہ اپنے باپ کے سینہ پر ذبح کئے ھوئے پرندے کی طرح تڑپنے لگا ،اس نے آسمان کی طرف سر اٹھایااور باپ کے ھاتھوں پر دم توڑدیا۔۔۔یہ وہ منظر تھا جسے دیکھ کر دل پھٹ جاتے ھیں اور زبانوں پر تالے لگ جاتے ھیں،امام نے پاک خون سے بھرے ھوئے اپنے دونوں ھاتھوں کو آسمان کی طرف اٹھاکر وہ خون آسمان کی جانب پھینک دیااور ایک قطرہ بھی واپس زمین پر نہ آیا، جیسا کہ امام محمد باقر(ع)کا فرمان ھے کہ امام(ع) نے اپنے پرور دگار سے یوں مناجات فرما ئی :

”ھوّن۔۔۔“”میری مصیبتیں اس بنا پر آسان ھیں کہ اُن کو خدا دیکھ رھا ھے ،خدایا تیرے نزدیک یہ مصیبتیں ناقہ صالح کی قربانی سے کم نھیں ھونا چا ہئیں خدایا اگر تونے ھم سے کا میابی کو روک رکھا ھے تو اس مصیبت کو بہترین اجر کا سبب قرار دے ، ظالمین سے ھمارا انتقام لے ،دنیا میں نازل ھونے والی مصیبتوں کو آخرت کےلئے ذخیرہ قرار دے ،خدایا تو دیکھ رھا ھے کہ اِن لوگوں نے تیرے رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی شبیہ کو قتل کر ڈالا ھے “۔

امام حسین(ع) اپنے مر کب سے نیچے تشریف لائے اور اپنے پاک خون میں لت پت شیرخوار بچہ کے لئے تلوار کی نیام سے قبر کھودکر اس میں دفن کردیا ایک قول یہ ھے کہ آ پ(ع) نے شیر خوار کو شھداء کے برابر میں لٹادیا[50] اے حسین(ع) !خدا نے آپ(ع) کو اِن مصیبتوں کو برداشت کرنے کا حوصلہ دیا ،ایسی مصیبت کے ذریعہ کسی نبی کا امتحان نھیں لیا گیا اور ایسی مصیبتیں روئے زمین پر کسی مصلح پرنھیں پڑیں ۔

امام کی ثابت قدمی

امام(ع) تن تنھا میدان میں دشمنوں کے سامنے کھڑے رھے اور بڑے بڑے مصائب کی وجہ سے آپ کے ایمان و یقین میں اضافہ ھوتارھا آپ(ع) مسکر ارھے تھے اور آپ(ع) کو فردوس اعلیٰ کی منزلوں پر اعتماد تھا۔نہ آ پ(ع) کی اولاد ،اھل بیت(ع) اور اصحاب کے شھید ھو جانے سے آپ(ع) کی استقامت و پائیداری میں کو ئی کمی آئی اور نہ ھی پیاس کی شدت اور خون بہہ جانے کا آپ(ع) پر کو ئی اثر ھوا آپ(ع) ان انبیاء اوراولی العزم رسولوں کی طرح ثابت قدم رھے جن کو اللہ نے اپنے بقیہ بندوں پر برتری دی ھے ، آپ(ع) کے فرزند ارجمند امام زین العابدین(ع) اپنے پدر بزرگوار کے صبر اوراستقامت کے سلسلہ میں فرماتے ھیں:” جیسے جیسے مصائب میں شدت ھو تی جا رھی تھی آپ(ع) کے چھرے کا رنگ چمکتا جا رھا تھا ، آپ(ع) کے اعضاو جوارح مطمئن ھو تے جا رھے تھے ،بعض لوگ کہہ رھے تھے : دیکھو انھیں مو ت کی بالکل پروا نھیں ھے “۔[51]

عبد اللہ بن عمار سے روایت ھے :جب دشمنوں نے جمع ھو کر آپ پر حملہ کیا تو آپ(ع) نے میمنہ پر حملہ کیایھاں تک کہ وہ آپ(ع) سے شکست کھا گئے خدا کی قسم میںنے کسی ایسے شخص کو نھیں دیکھا جس کی اولاد اور اصحاب قتل کر دئے گئے ھوں اور امام جیسی بلند ھمتی کامظاھرہ کرسکے، خدا کی قسم میں نے آپ سے پھلے اور آپ(ع) کے بعد آپ(ع) کے جیسا کو ئی شخص نھیں دیکھا۔[52]

ابن خطاب فھری نے آپ(ع) کی جنگ کی یوں تصویر کشی کی ھے :



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 next