امامت قرأن و حديث کی روشنی ميں



وہ اسلام جس نے دنیا کے تمام مسائل میں احکام وقواعد معین کئے ھیں انسان کی زندگی کے ھر پھلو پر نظر رکھی هو؛ خرید وفروخت هو یا حوالہ وکفالہ، اجارہ ووکالت هو یا مزارعہ ومساقاة، قرض ورہن هو یا نکاح وطلاق، صید وذباحہ هو یا اطعمہ واشربہ اور چاھے حدود ودیات هو یا دیگر مسائل ، جب ان سب کو بیان کردیا تو کیا وہ اس اھم مسئلہ امامت کو نھیں بیان کرے گا؟!

 Ú©ÛŒÙˆÙ†Ú©Û مسئلہ امامت اتنااھم Ú¾Û’ جس Ú©Û’ ذریعہ امت اسلامی Ú©ÛŒ قیادت او ررھبری هوتی Ú¾Û’ اور جس چیز کا آغاز خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ Ùˆ سلمنے فرمایا Ú¾Û’ اس Ú©Ùˆ پایہ تکمیل تک پهونچانا Ú¾Û’Û”

وہ اسلام جو اپنے احکام میں عدالت ومساوات او رمسلمانوں کے لئے اطمینان کا خیال رکھتا ھے جو ھر خوف سے امان دیتا ھے اور انسان کے اعضاء وجوارح کو ایسی طاقت عطا کردیتا ھے جس سے خیانت، فتنہ وفساد او ربرائیوں سے اپنے نفس کو روک لیتا ھے تو کیا اسلام بغیر امام کے اس عظیم ہدف تک پهونچ سکتا ھے؟!!

 Ú©ÛŒÙˆÙ†Ú©Û امام Ú©ÛŒ لوگوں Ú©Ùˆ گمراھی سے نجات دینے ولاتاھے اور بے عدالتی Ú©Ùˆ ختم کرتاھے کیونکہ بے عدالتی سے حاکم فاسد هوجاتا Ú¾Û’ اور حاکم Ú©Û’ فاسد هونے سے انسانی نظام اوردین فاسد هوجاتا Ú¾Û’ لہٰذا ان تمام برائیوں سے محفوظ رکھنے Ú©Û’ لئے ایسے امام Ú©ÛŒ ضرورت Ú¾Û’ جس میں تمام صفاتِ کمال موجود هوں، ھر برائی سے پاک وپاکیزہ هو، او راپنے قول وفعل میں ھر طرح Ú©ÛŒ خطا وغلطی سے محفوظ هو، Ú¾Ù… اسی چیز Ú©Ùˆ عصمت کہتے ھیں۔

 ÛŒÛ بات واضح Ú¾Û’ کہ ان تمام صفات Ú©Û’ حامل شخص کا انتخاب هونا ضروری Ú¾Û’ جو کسی معمولی شخص میں جمع نھیں هوسکتیں، تو پھر نبی Ú©Û’ لئے ضروری Ú¾Û’ کہ وہ امت Ú©Û’ سامنے اس منصب Ú©Û’ بارے میں بیان دے، اور صاف طور پر لوگوں Ú©Ùˆ بتائے کہ میرے بعد فلاں امام Ú¾Û’Û”

اور یہ عصمت جس کے بارے میں ھم نے اشارہ کیا کوئی عجیب چیز نھیں ھے جیسا کہ بعض اسلامی فرقوں خصوصاً یورپی موٴلفین کا عقیدہ ھے بلکہ یہ تو حاکم کے شرائط میں سے ایک اھم شرط ھے ،اور وہ بھی ایسا حاکم جس کا کام قرآن کی تفسیر کرنا اور اسلام کے غیر واضح مسائل کی شرح کرنا ھے، کیونکہ عصمت کے معنی عرب میں ”منع“ کے ھیں [20]

اور اصطلاح میںیھی معنی مراد لئے جاتے ھیں یعنی عصمت ایک نفسانی ملکہ (قوت) ھے جو انسان کو فعلِ معصیت او رترک طاعت سے منع کرے اور اس کی عقل وشعور پر احاطہ رکھے تاکہ اس کو ھر طرح هوشیار رکھے اور اس سے کوئی بھول چوک نہ هو اوراس سے کوئی ایسا فعل سرزد نہ هو جس سے خدا ناراض هو۔ کیونکہ معصیت کا مرتکب قرآنی اصطلاح میں ظالم هوتاھے:

<وَمَنْ یَتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰہِ فَاٴُوْلٓئِکَ ہُمُ الظَّاْلِمُوْنَ>[21]

”اور جو خدا کی مقرر کی هوئی حدوں سے آگے بڑھتے ھےںوھی لوگ تو ظالم ھیں“

<وَمَنْ یَتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰہِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہُ>[22]



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 next