حدیث غدیر پر مختصر بحث



عمر بن خطاب اس موقع پر آگے بڑھ کر حضرت علی علیہ السلام کی خدمت میں مبارکباد پیش کی۔

۱۲۔ رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کا خوف

علامہ سیوطی نے نقل کیا ھے کہ رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے فرمایا: ”بے شک خداوندعالم نے مجھے مبعوث برسالت فرمایا، اور یہ بات میرے لئے سنگین تھی، میں جانتا تھا کہ جب میں لوگوں کے سامنے اس امر کو پیش کروں گا تو وہ مجھے جھٹلائیں گے، اس موقع پر خداوندعالم نے مجھے تاکید کی کہ اس امر کو آپ ضرور پھنچائیں ورنہ آپ کے لئے عذاب ھوگا، چنانچہ اس موقع پر یہ آیت نازل ھوئی:

<یَااٴَیُّہَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا اٴُنزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہُ ۔۔۔>[158]

قارئین کرام!   پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ Ùˆ سلم)کیوں خوف زدہ تھے اور کس چیز سے خوف زدہ تھے؟ کیا اس بات Ú©Ùˆ پھنچانے سے خوف زدہ تھے کہ حضرت علی علیہ السلام تمھارے دوست اور مددگار ھیں؟ ھرگز ایسا نھیں Ú¾Û’ØŒ بلکہ پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ Ùˆ سلم)حضرت علی علیہ السلام Ú©ÛŒ خلافت Ùˆ ولایت اور سرپرستی Ú©Ùˆ پھنچانے میں لوگوں سے خوف ز دہ تھے، آپ جانتے تھے کہ قریش حضرت علی علیہ السلام سے خصومت اور دشمنی رکھتے ھیں، کیونکہ یہ اسی شخصیت Ù†Û’ تو ان Ú©Û’ آباء Ùˆ اجداد Ú©Ùˆ مختلف جنگوں میں قتل کیا تھا۔۔۔۔

۱۳۔ حارث بن نعمان کا انکار

بعض روایات کے مطابق حارث بن نعمان فھری غدیر کی خبر سن کر رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی خدمت میں آیا اور عرض کی: ”اے محمد! تم نے خداوندعالم کی طرف سے ھمیں حکم دیا کہ خدا کی وحدانیت اور تمھاری رسالت کی گواھی دیں، تو ھم نے قبول کیا، تم نے ھمیں پانچ وقت کی نماز پڑھنے کا حکم دیا ھم نے اس کو بھی قبول کیا، تم نے روزہ، زکوٰة اور حج کا حکم دیا ھم نے مان لیا، لیکن تم اس پر راضی نھیں ھوئے اور اپنے چچا زاد بھائی کو ھاتھ پکڑ کر بلند کیا اور اس کو ھم پر فضیلت دی اور کھا: ”من کنت مولاہ فعلیّ مولاہ“، کیا یہ حکم اپنی طرف سیتھا یا خدا وندعالم کی طرف سے ؟ رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے فرمایا: ”قسم اس خداکی جس کے علاوہ کوئی معبود نھیں ھے، میں نے اس حکم کو (بھی) خداوندعالم کی طرف سے پھنچایا ھے“۔ اس موقع پر حارث بن نعمان منھ موڑ کر اپنی سواری کی طرف یہ کہتا ھوا چلا : ”پالنے والے! اگر جو کچھ محمد کہہ رھے ھیں حق ھے تو مجھ پر آسمان سے پتھر بھیج دے یا مجھے درد ناک عذاب میں مبتلا کردے“۔

 Ú†Ù†Ø§Ù†Ú†Û وہ ابھی اپنی سواری تک نھیں Ù¾Ú¾Ù†Ú† پایا تھا کہ خداوندعالم Ù†Û’ آسمان سے اس پر ایک پتھر نازل فرمایا جو اس Ú©Û’ سر پر آکر لگا اور اس Ú©ÛŒ پشت سے باھر Ù†Ú©Ù„ گیا، اور وہ وھیں واصل جھنم ھوگیا، اس موقع پر یہ آیہ شریفہ نازل ھوئی:

<سَاٴَلَ سَائِلٌ بِعَذَابٍ وَاقِعٍ >[159]

”ایک مانگنے والے نے واقع ھونے والے عذاب کا سوال کیا ۔“

اس حدیث کو ثعلبی نے اپنے تفسیر میں مذکورہ آیت کے ذیل میں اور دیگر علماء نے بھی نقل کیا ھے۔

اگر حدیث غدیر صرف حضرت علی علیہ السلام کی محبت اور آپ کی نصرت کی خبر تھی تو حارث کو خداوندعالم سے عذاب مانگنے کی کیا ضرورت تھی؟ یہ تو صرف سرپرستی کی صورت میں ممکن ھے جس کو بعض لوگ قبول نھیں کرنا چاہتے تھے۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 63 64 65 66 67 68 69 70 71 72 73 74 75 76 77 78 79 80 81 82 83 84 85 86 87 88 89 90 91 92 93 94 next