حدیث غدیر پر مختصر بحث



و اوضح بالتاویل ما کان مشکلاً علیّ بعلم نالہ بالوصیة

فرغانی صاحب کہتے ھیں:

”اس شعر میں اس مطلب کی طرف اشارہ ھوا ھے کہ حضرت علی (کرم اللہ وجہہ) وہ شخصیت ھیں جنھوں نے قرآن و سنت کی مشکل چیزوں کو بیان کیا اور اپنے علم کے ذریعہ کتاب و سنت کے مشکل اور پیچیدہ مسائل کو واضح کیا ھے، کیونکہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے ان کو اپنا وصی اور قائم مقام قرار دیا ھے جس وقت آپ نے فرمایا: ”من کنت مولاہ فعلی مولاہ“۔[174]

۸۔ تقی الدین مقریزی

موصوف نے ابن زولاق سے نقل کیا ھے:

”۱۸/ ذی الحجہ روز غدیر خم سن ۳۶۳ ھ کو مصر اور مغرب کی کچھ جماعتیں اور اُن کے اطرافیان آپس میں جمع ھوکر دعا پڑھنے میں مشغول تھے، کیونکہ وہ دن عید کا دن تھا کیونکہ اس روز حضرت رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے حضرت علی علیہ السلام سے عہد کیا اور ان کو اپنا خلیفہ قرار دیا۔۔۔۔“[175]

۹۔ سعد الدین تفتازانی

موصوف حدیث غدیر کی دلالت کے بارے میں کہتے ھیں: ”(مولیٰ) کبھی آزاد کرنے والے، کبھی آزاد ھونے والے، کبھی ھم قسم، پڑوسی، چچا زاد بھائی، یاور اور سرپرست کے معنی میں استعمال ھوتا ھے۔ جیسا کہ خداوندعالم فرماتا ھے: <مَاٴْوَاکُمْ النَّارُ ہِیَ مَوْلَاکُمْ>، یعنی نار جھنم تمھارے لئے سزاوار تر ھے، اس معنی کو ابو عبیدہ نے نقل کیا ھے۔ اور پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے فرمایا: ”ایّما امراٴة اٴنکحت نفسھا بغیر اذن مولاہ۔۔۔“، (یعنی وہ عورت جو اپنے مولا کی اجازت کے بغیر کسی سے نکاح کرلے۔۔۔) ، اس حدیث میں لفظ مولا کے معنی ولی اور سرپرست کے ھیں، اس معنی کی مثالیں اشعار میں بہت زیادہ پائی جاتی ھیں، اور عام طور پر لفظ ”مولا“ کے معنی کلام عرب میں متولی، مالک اور اولیٰ بالتصرف کے مشھور ھیں، جن کو بہت سے علمائے اھل لغت نے بیان کیا ھے، اور اس لفظ کا مقصود یہ ھوتا ھے کہ لفظ ”مولا“ اس معنی کے لئے اسم ھے، نہ کہ صفت اور اولیٰ بالتصرف، جس سے یہ اعتراض ھوسکے کہ یہ لفظ اسم تفضیل کا صیغہ نھیں ھے، اور اس معنی میں استعمال نھیں ھوتا۔ ضروری ھے کہ حدیث غدیر میں لفظ ”مولا“ سے یھی مراد لئے جائیں، تاکہ صدر حدیث سے مطابقت حاصل ھوجائے۔ اور یہ چھٹے معنی یعنی ”ناصر“ سے بھی میل نھیں کھاتا؛ کیونکہ ایسا نھیں ھوسکتا کہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)اس گرمی کے ماحول اور تپتی ھوئی زمین پر اتنے بڑے مجمع کو جمع کرکے اس معنی کو پھنچائیں، لہٰذا یہ مطلب بھی واضح ھے۔۔۔۔“

موصوف آخر میں کہتے ھیں: ”یہ بات مخفی نہ رھے کہ لوگوں پر ولایت، ان کی سرپرستی، لوگوں کے امور میں تدبیر کرنا اور ان کے کاموں میں تصرف کرنا پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی منزلت کی طرح امامت کے معنی سے بھی مطابقت رکھتا ھے۔“[176]

حدیث غدیر کو چھپانے والے

بعض روایات کے مطابق حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے ایک مجمع میں اصحاب سے کھا کہ جو لوگ غدیر میں موجود تھے اور انھوں نے حدیث غدیر کو سنا ھے وہ کھڑے ھوں اور اس مجمع کے سامنے گواھی دیں۔ اصحاب کے ایک گروہ نے کھڑے ھوکر اس چیز کی گواھی دی لیکن بعض اصحاب نے مخصوص وجوھات کی بنا پر گواھی نھیں دی، اور مختلف بھانے پیش کئے، جس کے نتیجہ میں وہ لاعلاج بیماروں میں مبتلا ھوگئے، جن میں سے درج ذیل کا اصحاب کا نام لیا جاسکتا ھے:

۱۔ انس بن مالک: انھوں نے حدیث غدیر کو چھپایا اور برص(سفید کوڑھ) کے مرض میں مبتلا ھوگئے[177]

۲۔ براء بن عازب: یہ حدیث غدیر کو چھپانے کی وجہ سے اندھے ھوگئے[178]



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 63 64 65 66 67 68 69 70 71 72 73 74 75 76 77 78 79 80 81 82 83 84 85 86 87 88 89 90 91 92 93 94 next