معرفت امام مهدی (ع)



امت اور صحابہ Ú©Ùˆ اھلبیت Ú©ÛŒ Ù¾Ú¾Ù„ÛŒ فرد Ú©Ùˆ پہچاننے Ú©Û’ علاوہ مزید کوئی ضرورت نھیں تھی اور نہ Ú¾Û’ کیونکہ امت Ú©Û’ لئے کسی Ú©Ùˆ امام بنانے Ú©ÛŒ ذمہ داری انھیںکے کندھوں پر تھی تو امت Ú©Ùˆ ضلالت اور گمراھی سے بچانے Ú©Û’ لئے بھی ان پر لازم تھا کہ وہ اپنے جانشین Ú©Ùˆ مشخص کرتے (تاکہ وہ اپنی اس ذمہ داری Ú©Ùˆ قبول کرکے اس Ú©Ùˆ بنحو احسن نبھاتے)اور یہ طریقہ اسی طرح آخری امام تک چلتا رہتا جو قرآن Ú©Û’ ساتھ ساتھ لوگوں Ú©Ùˆ ضلالتوں Ú©Û’ بھنور میں ڈوبنے سے بچا سکیں اور آخر میں حوض کوثر پر نبی  (ص)اکرم سے جاملیں۔

اس Ú©Û’ پیش نظرجب حضرت علی (ع)جوبے شماروایات واحادیث Ú©Û’ ذریعے جس میں ایک خود حدیث ثقلین ھے،اس Ú©Û’ مطابق نبی  (ص)Ú©Û’ سب سے Ù¾Ú¾Ù„Û’ جانشین اورعترت کہ جس Ú©ÛŒ پیروی واجب Ú¾Û’ اس Ú©Û’ حقیقی مصداق ھیںتو کوئی ضرورت نھیں تھی کہ خود رسول اکرم  (ص)ھر زمانے اور ھر نسل Ú©Û’ ولی ورھبر کانام بتانے اور معین کرنے Ú©ÛŒ ذمہ داری خود قبول کرتے اگر چہ Ú¾Ù… یہ نہ کھیں کہ بنیادی طور پرایسی توقع رکھنا کوئی معمولی بات نھیں Ú¾Û’ جیسا کہ Ú©Ú†Ú¾ مسائل میں اس Ú©ÛŒ ضرورت پڑتی Ú¾Û’ تو وہ موجود نھیںھوتی۔

لہذا ھر زمانہ اور ھر نسل کے امام کی شناخت کا معیار دو چیزیں ھیں:یا تو تمام کے تمام کا تعین ایک ھی جگہ ھو جائے گا اور یا ھر امام سابق بعد میں آنے والے امام کے بارے میں خبر دے کر اس کو معین کرے۔ یہ دوسرا طریقہ فطری اعتبار سے زیادہ شناختہ شدہ ھے جبکہ انبیاء و ائمہ علیھم السلام کی یھی سیر ت رھی ھے اور لوگوں نے بھی گذشتہ دورسے آج تک اپنی سیاستوں اور تدابیر میں اسی کی پیروی کی ھے ۔

اگر آج بھی اھل بیت علیھم السلام کے تعین و تشخیص کی حقیقت کے بارے میں دیکھیں تو نظر آئے گا کہ نص و روایت میں دونوں طریقوں کا ذکر ھے اور تواتر کے ساتھ یہ روایات ھم تک پھونچی ھیں اور اگر کوئی تاریخ کے اعتبار سے دیکھنا چاھے تو حضرات ائمہ علیھم السلام کی رفتار اور طرقوں کا مطالعہ کرے تو قطعی طور پر اسے معلوم ھوجائے گا کہ ائمہ معصومین علیھم السلام حکام وقت کے مقابل امت پر اپنے کو منصب امامت و رھبری کا لائق اور اپنے کو حکومت وقت کی نسبت اعتراض کرنے والوں کا امام اور رھبر سمجھتے تھے جیساکہ اکثر ماننے والے انھیں ھی اپنا رھبر مانتے تھے اور اسی حال میں ھر امام نے اپنے دور امامت میں اپنے بعد ھونے والے امام کی طرف اشارہ کیا ھے اور تمام ائمہ کی یہ سیرت رھی ھے کہ خود کو قید خانوں میں رکھنا،ظالم و جابر حکام کے ھاتھوں شھادت کے درجہ پر فائز ھونا گوارا کیاچاھے زھر سے یا تلوار کے ذریعہ ۔

اب اگر فرض کریں کہ ان میں سے کسی امام Ù†Û’ اپنے بعدھونے والے امام کومعین نہ کیا Ú¾Ùˆ جبکہ بعد والے امام کا تعین اسی Ú©Û’ معین کرنے پر موقوف ھو،اس امام کا اپنے بعد والے امام کا معین نہ کرنے کا مطلب یہ ھوگاکہ اس امام Ùˆ رھبر Ú©ÛŒ امامت ،اس Ú©Û’ بعد سے ھر زمانے اور ھر نسل Ú©Û’ لئے ھوجائے Ú¯ÛŒ چونکہ اس عبارت Ú©Û’ معنی یہ ھیں کہ :ھر گز ایک دوسرے سے جدا نہ Ú¾ÙˆÚº Ú¯Û’ اور حوض کوثر پرمجھ سے ملیں Ú¯Û’ ۔لہٰذاھر زمانے میں عترت رسول  (ص)میں سے کسی امام معصوم کا قرآن کریم Ú©Û’ ساتھ ھونا ضروری Ú¾Û’ اسی لئے ابن حجرنے اس طرح اپنی رائے پیش Ú©ÛŒ Ú¾Û’ :

احادیث میں اھل بیت (ع)سے تمسک کا وجوب ،عترت میں سے کسی لائق فرد Ú©Û’ حضور سے خالی نہ ھونا اور قیامت تک Ú©Û’ لئے امت کا اس  سے تمسک کرنے Ú©ÛŒ طرف اشارہ کیا گیا Ú¾Û’ ۔جس طرح روز حشر تک امت اس قرآن کریم سے متمسک رھے Ú¯ÛŒ یہ اس لئے Ú¾Û’ کہ اھل بیت اھل زمین Ú©Û’ لئے امان ھیں اور یہ حدیث کہ”ھرنسل میں میری امت Ú©Û’ درمیان میرے Ú¾ÛŒ اھل بیت(ع) سے Ú©Ú†Ú¾ عادل موجود Ú¾ÙˆÚº گے“بھی اس حقیقت پر دلالت کررھی Ú¾Û’ [70]

حدیث”من مات ولم یعرف امام زمانہ فقد مات میتةََ جاھلیة۔۔۔“

شیعہ و سنی کی حدیث کی کتابوں میں اس حدیث کی متعدد تعبیرات نقل ھوئی ھیں (کہ سب کے معنی ایک ھیں)کہ اھل سنت میں بخاری و مسلم[71]اور شیعہ امامیہ[72] میں سے شیخ صدوق،ابن بابویہ، حمیری اور صفاراس مساٴلہ پر واضح طور پر متفق ھیں اور اکثر محدثین نے اس روایت کو اتنے افراد سے نقل کیا ھے کہ جن کا شمار کرنا مشکل ھے۔[73]

لہٰذا اس حدیث Ú©Û’(سند Ú©Û’ عنوان سے)صحیح ھونے پر کوئی شخص اعتراض نھیں کرسکتا اگرچہ شیخ ابو زھرہ Ú©Ùˆ عجیب Ùˆ غریب ÙˆÚ¾Ù… ھوا[74]اور مذکورہ احادیث میں سے صرف اسی Ú©Ùˆ کافی میں دیکھا Ú¾Û’Û”(Ûµ)جیسا کہ ابھی پیش کیا ،اور بعید بھی نھیں Ú¾Û’ کہ اس حدیث Ú©Ùˆ متواتر سمجھا جائے اور دوسری جانب یہ حدیث صراحتاًاس مطلب--”امام واقعی Ú©ÛŒ شناخت ھر مسلمان مردو عورت پر ضروری Ú¾Û’ØŒ افسوس تو ان مسلمانوں Ú©Û’ انجام پر Ú¾Û’ کہ کہ مرتے دم تک اپنے امام Ú©Ùˆ نھیں پہچانا“پر دلالت کر رھی Ú¾Û’ کہ جوکسی عنوان سے قابل تاویل Ùˆ توجیہ نھیں Ú¾Û’Û”       

اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ ”اگر کوئی مسلمان امام کو نہ پہچانے گویا دنیا سے جاھلیت کی موت مرا“اس کا مقصد سلطان یا حاکم ھے چاھے وہ فاسق و فاجر ھی کیوں نہ ھو؛سب سے پھلے محکم دلیل سے ثابت کرنا ھوگا کہ فاسق و ظالم شخص کی شناخت واجبات دین میں سے ھے پھر کھیں یہ مشخص ھوگا کہ فاسق و ظالم حاکم کی شناخت کا مثبت نتیجہ کیا ھو سکتا ھے کہ اگر مسلمان اسے بغیر پہچانے دنیا سے چلا جائے تو کیا اس کی موت جا ھلیت کی موت ھوگی؟!



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 next