اسلامي فرقے اورتقيہ



جو شخص بھی ایمان لانے کے بعد کفر اختیار کرلے ...علاوہ اس کے کہ جو کفر پر مجبور کردیا جائے اور اس کا دل ایمان کی طرف سے مطمئن ہو ...اور کفر کے لئے سینہ کشادہ رکھتا ہو اس کے اوپر خدا کا غضب ہے اور اس کے لئے بہت بڑا عذاب ہے .

اس آیہ شریفہ کی شان نزول میں مفسرين کا کہنا ہے : جب پيامبر اسلام(ص) لوگوں کو توحید کی طرف دعوت دیتے هوئے بتوں کو اعلانیہ طور پر باطل قرارديتے تھے تو کفار قریش اسے تحمل نہیں کرسکتے تھے . اورجب کوئی اسلام قبول کر تا تھا ان پر ظلم وتشدد کیا کرتے تھے .چنانچہ بلال، عمار، ياسر و سميه (رض) جیسے پاک دل اور ایمان سے سرشار افراد کو مختلف مواقع پر جان لیوا اذیت اور آزار پہونچا تے تھے اور ان کو دوبارہ کفر کی طرف بلاتے تھے .چنانچہ عمار اور ان کے ماں باپ کو پیامبر اسلام (ص) کی شان میں گستاخی اور نازیبا الفاظ زبان پر لانے پر مجبور کیا گيا؛ تو جناب یاسر اور ان کی زوجہ ، یعنی حضرت عمار کے والدین نے یہ گوارا نہیں کیا کہ پیامبر اسلام (ص) کی شان میں گستاخی کئے جائيں . اسی جرم میں ان دونوں کو اپنے بیٹے کے سامنے شہید کئے گئے ، لیکن عمار کی جب باری آئی تو اپنی جان بچانے کے خاطر کفار قریش کے ارادے کے مطابق پیامبر کی شان میں گستاخی کی . جس پر کفار نے انہیں آزاد کیا .جب رسول اللہ (ص) کی خدمت میں یہ شکایت پہونچی کہ عمار نے آپ کی شان میں گستاخی کی ہے . تو فرمایا : ایسا ممکن نہیں کہ عمار نے دوبار ہ کفر اختیار کیا ہو بلکہ وہ سر سے لیکر پیر تک ایمان سے لبریز اور اس کے گوشت و خون اور سراسر وجود میں ایمان کا نور رواں دواں ہے .اتنے میں عمار روتے ہوئے آپ (ص) کی خدمت میں پہونچے ،آنحضرت (ص) نے اپنے دست مبارک سے ان کے چهرے سے آنسو صاف کیا اور فرمایا : جو کام تو نے انجام ديا هے ، قابل مذمت اور جرم نہیں ہے اگر دوبارہ کبھی ایسا موقع آجائے اور مشرکوں کے ہاتھوں گرفتار ہوجائے تو کوئی بات نہیں کہ تو ان کی مرضی کے مطابق انجام دو .پھر یہ آیہ شریفہ نازل ہوئی .

جس سے معلوم ہوتا کہ دینی مقدسات کی شان میں گستاخی کرنے پر مجبور ہوجائے تو کوئی بات نہیں . آپ کو اختیار ہے کہ یا آپ تقیہ کرکے اپنی جان بچائے یا جرأت دکھاتے ہوئے جام شہادت نوش کرے .

ایک روايت منقول ہے کہ ایک مسلمان کو مسیلمہ کے پاس لایا گیا جو نبوت کا ادعی ٰ کررہا تھا .مسیلمہ نے پوچھا: محمد (ص) کے بارے میں تو کیا کہتے ہو؟

اس نے کہا : آپ اللہ کے رسول ہیں .

مسیلمہ : میرے بارے میں کیا کہتے ہو؟

مسلمان: آپ بھی اسی طرح ہے .

دوسرے شخص کو لایا گیا ، اور اس سے یہی سوال تکرار کیا ، لیکن کچھ بھی نہیں کہا .تو اسے قتل کرنے کا حکم دیا گیا .

یہ خبر رسول خدا(ص) تک پہونچی ، فرمایا: پہلا شخص نے ترخیص کے دستور کی رعایت کی اور دوسرے شخص نے حق کو آشکار اور بلند و بالا کیا .اور اس کی حق میں دعا کی اور فرمایا :ان کیلئے شہادت مبارک ہو . (4 )

يوسف بن عمران روايت کرتا ہے کہ ميثم تمار(رہ) سے سنا ہے: امير المؤمنين(ع) نے مجھے اپنے پاس بلایا اور فرمایا : اے میثم (رہ)جب عبيد الله ابن زياد تجھے میرے بارے میں گستاخی کرنے اور مجھ سے برائت کرنے کا حکم دے گا تو تو کیا کرے گا؟



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 next