اسلامي فرقے اورتقيہ



یا وہ جھوٹ بول رہا ہے ،ایسی صورت میں وہ خود رسوا اور ذلیل ہوگا اور قتل کرنے کی ضرورت ہی نہیں . کیونکہ قتل کرنا اسے افکار عمومی میں ایک کامیاب اور فاتح ہیرو اور لیڈر بنادے گا . اور اس کے پیچھے ایک گروہ ہمیشہ کیلئے چلنے کی کوشش کرے گا ، اس سے بہتر ہے کہ وہ لوگوں میں زندہ رہے اور لوگ خود ان سے دور ہو جائیں .

یا واقعاً وہ سچ کہہ رہا ہے اور خدا کی طرف سے آیا ہے ، اس صورت میں جس چیز کی وہ تہدید کر رہا ہے ممکن ہے تحقق پائے . ہمارا ان کے ساتھ حساب کتاب بالکل صاف ہے اس لئے اسے قتل کرنا کسی بھی صورت میں عاقلانہ کام نہیں ہوگا.ان کلمات کے ساتھ لوگوں کو اور بھی کچھ نصیحیں کی .اس طرح فرعونیوں کے دل میں وحشت اور رعب ڈال دی ، جس کی وجہ سے وہ لوگ ان کے قتل کرنے سے منصرف ہوگئے .

قرآن اس آیہ شریفہ میں مؤمن آل فرعون کے عقيده کو چھپانے کو ایک اچھا اور نیک عمل کے طور پر معرفی کررها ہے ، کیونکہ انہوں نے ایک بہت بڑے انقلابی رہنما کی جان بچائی اور دشمنوں سےنجات دلائی.اس سے معلوم ہوا کہ تقیہ عقیدہ کو چھپانے کے سوا کچھ نہیں .

سوال یہ ہے کہ کیا کوئی اس مرد مجاہد کے اس عمل کو اس حساس موقع پرایک عظیم ہدف کے بچانے کے خاطر فدا کاری اور جہاد کے علاوہ کچھ اور کوئي نام دےسکتا ہے ؟!

کیا کوئی اس حقیقت سے انکار کرسکتا ہے کہ اگر یہ مرد مؤمن تقیہ کے اس ٹیکنیک سے استفادہ نہ کرتا تو حضرت موسي(ع) کی جان خطرے میں پڑ جاتی .

حضرت ابراهيم (ع)تقیہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں : فَقَالَ إِنِّي سَقِيمٌ فَتَوَلَّوْا عَنْهُ مُدْبِرِينَ فَرَاغَ إِلَى آلِهَتِهِمْ فَقَالَ أَلَا تَأْكُلُونَمَا لَكُمْ لَا تَنطِقُونَفَرَاغَ عَلَيْهِمْ ضَرْبًا بِالْيَمِين. (2 )

اپنی قوم سے کہنے لگے: میں بیمار ہوں اور میں تمھارے جشن میں نہیں آسکتا . قوم نے بھی اس کوچھوڑ دیا . ابراہیم(ع) نے بھی بت خانے کو خلوت پایا ؛بتوں کو توڑنے کی نیت سے چلے اور تمام بتوں کو مخاطب کرکے کہا:تم لوگ اپنے بندو ں کے رکھے ہوئے کھانوں کو کیوں نہیں کھاتے ہو؟ بات کیوں نہیں کرتے ہو؟ تم کیسے بے اثر اور باطل خدا ہو؟! پھر ایک مضبوط اور محکم کلہاڑی اٹھائی اور سب بتوں کو توڑ ڈالا سوای ایک بڑے بت کے.

ان آیات اور روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم (ع) بتوں کو توڑنے کا ایک وسیع اور دقیق پروگرام بناچکے تھے ، اور اس پروگرام کو اجرا کرنے کیلئے ایک خاص اور مناسب موقع اور فرصت کی تلاش میں تھے . یہاں تک کہ وہ وقت اور عید کا دن آگیا اور اپنا کارنامہ انجام دیا . یہ دن دولحاظ سے زیادہ مناسب تھا کہ ایک تو سب لوگ شہر سے دور نکل چکے تھے جس کی وجہ سے اپنا کام صحیح طریقے سے انجام دے سکتے تھے اور دوسرا یہ کہ لوگ چونکہ تہوار کے ختم ہونے کے بعد بت خانے میں عبادت کیلئے آناتھا، لہذا لوگوں کے افکار اور احساس کو بیدار کرنے اور ان کو نصیحت کرنے کیلئے زیادہ موزون تھا . اور آپ کا یہ کام باعث بنا کہ لوگ سوچنے لگے اور شہر بابل والے ظالم و جابر حکمرانوں کے چنگل سے آزاد ہوگئے .

لوگوں کو آپ پر شک تو ہوچکا تھا لیکن آپ نے اپنے عقیدے کو مکمل طور پر چھپا رکھا تھا اور لوگوں کے دعوت کرنے پر کہا کہ میں بیمار ہوں .: فقال اني سقيم. جبکہ آپ کے جسم مبارک پر کوئی کسی قسم کی بیماری موجود نہیں تھی .لیکن آپ نے اپنے اس عظیم ہدف کو پایہ تکمیل تک پہونچانے کے خاطر توریہ کیا ، کیونکہ آپ کی بیماری سے مراد روحانی بیماری تھی کہ لوگوں کے خدا کو چھوڑ کر بتوں کی پوجھا کرنے کی وجہ سے احساس کررہے تھے .

۳ـ ٹیکنیکی تقیہ کے موارد میں سے این مورد حضرت مسیح (ع)کی جانب سے بھیجے ہوئے مبلغین کا داستان ہے جو انطاکیہ کے لوگوں کے درمیان میں بھیجے گئے تھے .جن کے بارے میں فرمایا: إِذْ أَرْسَلْنَا إِلَيْهِمُ اثْنَيْنِ فَكَذَّبُوہمَا فَعَزَّزْنَا بِثَالِثٍ فَقَالُوا إِنَّا إِلَيْكُم مُّرْسَلُونَ (3 )



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 next