اسلامي فرقے اورتقيہ



۲ـ تقيہ خوفيه کی دوسری دلیل:طبرسي (رہ)نےاميرالمؤنين(ع) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا : میں طبیب یونانی سے گفتگو کرنے اور کچھ اسرار ولایت دکھانے کے بعد وظیفہ شرعی کے بیان کرنے کے ضمن میں تجھے دستور دونگا کہ تو اپنے دین میں تقیہ پر عمل کرو . جیسا کہ خداوند تعالی نے فرمایا: : لا يتخذ المؤمنون...تجھے اجازت دونگا جب بھی تجھے کوئی مجبور کرے اور تمہیں خوف پیدا ہوجائے تو تو اپنے دشمنوں کی تعریف کیا کرو اور ہم سے دشمنی کا اظہار کرو. اگر واجب نمازوں کے پڑھنے سے جان کا خطرہ ہو تو ، ترک کردو .اس طرح کچھ دستور دینے کے بعد فرمایا: درحالیکہ تمھارے دل میں ہماری محبت پائی جاتی ہے اور ہماری پیروی کرتے ہو .مختصر وقت کیلئے ہم سے برائت کا اظہار کرکے اپنی جان ، مال ناموس اور دوستوں کو طولانی مدت کیلئے بچالو؛ یہاں تک کہ خدا تعالیٰ تم پرآسانی کے دروازے کھول دے . اور یہ بہتر ہے اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے اور اپنے دوستوں کی خدمات اور دینی امور میں ان کی اصلاح کرنے میں کوتاہی سے بچائے . (7 )

تقيہ كتمانيہ

يعني دین مقدس اسلام اور مکتب اہل بیت (ع)کی نشر واشاعت کے خاطر اپنی فعالیتوں کو مخفی اور پوشیدہ رکھنا ، تاکہ دشمنوں کے مقابلے میں زیادہ قدرت مند ہو . سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیوں ہمارے دینی اور مذہبی راہنما حضرات اس طرح تقیہ کرنے کا حکم دیتے ہیں ؟

اس کا جواب یہی ہے کہ کیونکہ مکتب تشیع ایک ایسا مکتب ہے کہ حقيقي اسلام کو صرف اور صرف ان میں ملاحظہ کرسکتے ہیں .شیعہ ابتدا ہی سے مظلوم واقع ہوا ہے کہ جب ائمہ طاہرین(ع) تقیہ کرنے کا حکم دے رہے تھے اس وقت شیعہ انتہائی اقلیت میں تھے اور ظالم وجابر اور سفاک بادشاہوں اور سلاطین کے زد میں تھے .اگر شیعہ اپنے آداب و رسوم کو آشکار کرتے تو ہر قسم کی مشکلات ان کے سروں پر آجاتی اور جان بھی چلی جاتی .اور کوئی شیعہ باقی نہ رہتا . اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ حقیقی اسلام باقی نہ رہتا . یہی وجہ تھی کہ ائمه اطهار(ع) نے تقیہ کا حکم دیا .

تقيہ كتمانيہ کی دلیل

۱ـ: كِتَابُ سُلَيْمِ بْنِ قَيْسٍ الْهِلَالِيِّ، عَنِ الْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ قَالَ سَمِعْتُ عَلِيّاً ع يَقُولُ يَوْمَ قُتِلَ عُثْمَانُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص قَالَ سَمِعْتُهُ يَقُولُ إِنَّ التَّقِيَّةَ مِنْ دِينِ اللَّهِ وَ لَا دِينَ لِمَنْ لَا تَقِيَّةَ لَهُ وَ اللَّهِ لَوْ لَا التَّقِيَّةُ مَا عُبِدَ اللَّهُ فِي الْأَرْضِ فِي دَوْلَةِ إِبْلِيسَ فَقَالَ رَجُلٌ وَ مَا دَوْلَةُ إِبْلِيسَ فَقَالَ إِذَا وُلِّيَ إِمَامُ هُدًى فَهِيَ فِي دَوْلَةِ الْحَقِّ عَلَى إِبْلِيسَ وَ إِذَا وُلِّيَ إِمَامُ ضَلَالَةٍ فَهِيَ دَوْلَةُ إِبْلِيسَ . (8 )

کتاب سليم بن قيس هلالي نےحسن بصري سے روايت کي ہے : هم نے امير المؤمنين(ع) سےقتل عثمان کے دن فرماتے هوئےسنا :هم نے رسول خدا(ص)سے تاکید کے ساتھ فرماتے هوئےسنا: تقیہ میرا دین ہے اور جو بھی تقیہ کا قائل نہیں ، اس کا کوئی دین نہیں . اور اگر تقیہ کے قوانین پر عمل نہ ہوتا تو شیطان کی سلطنت میں روی زمین پر خدا کی کوئی عبادت نہ ہوتی . اس وقت کسی نے سوال کیا ، ابلیس کی سلطنت سے کیا مراد ہے ؟

فرمایا : اگر کوئی خدا کا ولی یا عادل امام لوگوں پر حکومت کرے تو وہ خدائی حکومت ہے ، اور اگرکوئی گمراہ اور فاسق شخص حکومت کرے تو وہ شیطان کی حکومت ہے .

اس روایت سے جو مطلب ہمیں حاصل ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اس طاغوتی حکومت کے دوران صرف اپنے مذہب کو مخفی رکھنا اور خاموش رہنا صحیح نہیں ہے بلکہ اس میں بھی خدا تعالی کی عبادت و بندگی ہوتی رہے.

اصحاب كهف کا عمل بھی اسی طرح کا تقیہ تھا ، اور حضرت ابوطالب(ع) کا تقیہ بھی اسی قسم کا تقیہ شمار ہوتا ہے .جسے ابتدای اسلام میں انہوں نے اختیار کیا تھا .کہ اپنے دین کو کفار قریش سے مخفی رکھا گیا . اور کفار کا ہم مسلک ظاہر کرتے رہے تاکہ رسول گرامي اسلام(ص) کی حمايت اور حفاظت آسانی سے کرسکے .اور مخفی طور پر دین مبین اسلام کی ترویج اور انتشار کرتے رہے . چنانچہ آپ ہی کی روش اور ٹیکنک کی وجہ سے پيامبر اسلام(ص) سے بہت سارے خطرات دور ہوتے رہے .



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 next