اسلامي فرقے اورتقيہ



معمولاً تقيہ اقلیتوں سے مخصوص ہے جو اکثریت کے پنجوں میں اسیر ہوجاتے ہیں ایسی صورت میں اگر وہ اپنا عقیدہ کا اظہار کرتا ہے تو اس کے لئے جانی یامالی نقصان کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا .اور ساتھ ہی اس اقلیت والے گروہ کے ہاں موجود قومی سرمایہ اور طاقت کا ہدر جانے کے علاوہ اسے کچھ نہیں ملتا .

کيا عقل نہیں کہتي کہ یہ قومی سرمائے اور طاقت کا اہم ضرورت کے موقعوں کے لئے محفوظ رکھنا ایک عاقلانہ اور اچھا کام ہے ؟ بلکہ عقل کہتی ہے کہ ان طاقتوں کو اپنے عقیدے کوچھپا کر اور کتمان کرکے زخیرہ کیا جائے تاکہ انہیں مناسب فرصت اور مواقع پر بروی کار لایا جائے .

مثال کےطورپر: کوہستانی علاقوں اور دیہاتوں میں مختلف جگہوں سے پانی کے چھوٹے چھوٹے چشمے پھوٹنے لگتے ہیں. اگر ان کو ایک تالاب میں جمع کریں گے تو اس سے بہت بڑے مزرعے کو سیراب کرسکتے ہیں ، لیکن اگر ان کواسی طرح بہنے دیں تو کھیتوں کو سیراب کئے بغیر پانی اپنے اختتام کو پہنچ جاتا ہے . اسی لئے زمیندار ان چشموں کے نزدیک تالاب بناتے ہیں تاکہ اس پانی کو جمع کرکے بیج بوتے وقت زمین کو سیراب کر سکے . جب کہ اس سے قبل سارا پانی ہدر جاتا تھا . اسی طرح تقیہ بھی ہے کہ موقع محل پر مؤثر طریقے سے اس طاقت کو استعمال کرنے کیلئے عام موقعوں پر تقیہ کے ذریعے اس طاقت کی حفاظت کرتے ہیں . جو ایک معقول کام ہے اور ایک عاقلانہ فکر ہے .

۱.دفع ضرر

اور عقل بتاتی ہے کہ دفع ضرر واجب ہے ؛ اور تقیہ ایک ایسی ٹیکنیک ہے کہ جس کے ذریعے انسان جانی یا مالی ضرر کو اپنے سے اور اپنے دوسرے هم فکر افراد سے دفع کر سکتا ہے .اسی لئے فقہاء فرماتے ہیں : فقد قضي العقل بجواز دفع الضرر بہا (بالتقيہ) بل بلزومه و اتفق عليها جميع العقلاء: بل هو امر فطري يسوق الانسان اليه قبل كل شيئ عقله و لبہ و تدعوہ اليه فطرته(1 ) یعنی عقل تقیہ کے ذریعے سے دفع ضرر کو جائز قرار دیتی ہے بلکہ اس کے واجب ہونے پر تمام فقہاء اور عقلاء کا اتفاق ہے .اور اس سے بھی بالا تر یہ ایک فطری بات ہے کہ جو انسان کو اس کی فطرت اور عقل سب سے پہلے تقیہ کے ذریعے اپنی جان اور مال کی حفاظت کرنے پر ابھارتی ہے .اور یہ غریزہ ہر انسان اور حیوان میں پایاجاتا ہے .

۲ـ مہم پر اہم کا مقدم کرنا

فالعقل السليم يحكم فطريا بانه عند وقوع التزاحم بين الوظيفة الفرديه مع شوكة الاسلام و عزته و قوته او وقوع التزاحم بين الحفظ النفس و بين الواجب او محرم آخر لابد من سقوط الوظيفة الفرديه و ليست التقيہ الا ذالك.(2 )

حكم عقل سليم فطرتاً ایسی ہے کہ جب کوئی شخص اپنے فریضے کی انجام دہی کے موقع پر اسلام کی قدرت ، شان وشوکت اور عزت کے ساتھ مزاحم ہوجاتا ہے . یا اپنی جان بچانے کا وقت آتا ہے تو یہ کسی واجب یا حرام کام کا ترک کرنے یا انجام دینے پر مجبور ہوجاتا ہے تو ایسی صورت میں اہم کو انتخاب کرتے ہوئے مہم کو ترک کرنے کا نام تقیہ ہے . اس استدلال سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ : ان العقل يري ان احكام الدين انما شرعت لسعادة الانسان في حياته الي الابد، فاذا كانت هذه السعادة و ادانت الاكام متوقفة و الاخفاء عن الاعداء في فترة من الزمن فالفعل يستقل بالحكم بحسن التقية لقديما للاهم علي المهم. (3 )

عقل بتاتی ہے کہ احكام دين کو انسان کی ابدی خوش بختی کیلئے تشریع کیا ہے . لیکن اگر یہی خوش بختی اور احکام دین پر عمل کرنا کچھ مدت کیلئے اپنے جانی دشمنوں سے چھپا نے پر مجبور ہو تو عقل، تقیہ کرنے اور اہم کام کو مہم کام پر مقدم کرنے کو ایک اچھا اور مناسب عمل سمجھے گی .

اگر ان بیانات کو مختصر طور پر بیان کرنا چاہے تو یوں کہہ سکتے ہیں :جب بھی انسان یا مکلف دو کاموں کوانجام دینے پر مجبور ہو ؛ لیکن ان دوکاموں میں سے صرف ایک کو فی الحال انجام دی سکتا ہے . اب وہ سوچتا ہے کہ کس کام کو انجام دوں اور کس کام کو چھوڑ دوں؟! اگر وہ عاقل اور سمجھدار ہو تو وہ جس میں مصلحت زیادہ ہوگی اسے انجام دیں گے اور جس کام میں مصلحت کم ہوگی اسے ترک کریں گے . اسی کا نام تقیہ ہے .



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 next