اسلامي فرقے اورتقيہ



ü توریہ میں شخص واقعیت کا ارادہ کرتا ہے لیکن تقیہ میں نہیں .

ü توریہ میں کئی مصلحت کو ملحوظ نظر نہیں لیکن تقیہ میں کئی مصالح کو ملحوظ نظر رکھا جاتا ہے .

ü لیکن مصداق کے لحاظ سے ان دونوں میں عموم و خصوص من وجہ کی نسبت پائی جاتی ہے . کہ ان دونوں کا مورد اجتماع یہ ہے کہ تقیہ کرنے والا تقیہ کے موارد میں اوراظہار کے موقع پر حق کے برخلاف ، توریہ سے استفادہ کرتا ہے کیونکہ خلاف کا اظہار کرنا ؛ حق کا ارادہ کرنے یا خلاف حق کا ارادہ کرنے سے ممکن ہے.

ü تقيہ اور توريہ میں افتراق کا ایک مورد ، تقيہ كتماني ہے كه یہاں کوئی چیز بیان نہیں ہوئی ہے جو توریہ کا باعث بنے .

ü ان دونوں میں افتراق کا ایک اور مورد یہ ہے کہ توریہ میں کوئی مصلحت لحاظ نہیں ہوا ہے اور اگر کوئی مصلحت ملحوظ ہوا ہے تو بھی ذاتی منافع ہے .

تقيہ ، اكراه اور اضطرارکے درمیان میں تقابل

تقيہ کے بعض موارد کو اكراه و اضطرار کے موارد میں منحصر سمجھاجاتاہے .شيخ انصاري(رہ) مكاسب میں اكراه کے بارمیں یوں فرماتے ہیں : ثم ان حقيقة الاكراه لغة و عرفا حمل الغير علي ما يكرهه في وقوع الفعل من ذالك الحمل اقترانه بوعيد منه مظنون الترتب الغير علي ترك ذالك الفعل مضر بحال الفاعل او متعلقه نفسا او عرضا او مالا(12 ) اس تعریف سے معلوم ہوتا ہے کہ اکراہ کے تحقق پانے کے تین شرائط ہیں:

1. یہ مخالف کی طرف سے واقع ہوتا ہے . پس جہاں اگر خود انسان سے جلب منفعت یا دفع ضرر کیلئے کوئي اقدام اٹھائے تو وہ توریہ میں شامل نہیں ہے .

2. اكراه یہ ہے کہ مستقيماکسی کام پر انسان کو مجبور کیا جائے نه بطور غير مستقيم.

3. تهديد اور وعيد کے ساتھ ہو کہ اگر انجام نہ دے تو اس کی جان ، مال، عزت آبرو خطرے میں پڑ جائے .



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 next